خبرنامہ پاکستان

آئی ایم ایف کی ہدایات پربجٹ تیارکیا گیا:کامل علی آغا

اسلام آباد (آئی این پی) اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز نے کہا ہے کہ بجٹ غلط اعداد و شمار پیش کر کے پارلیمنٹ اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ، آئی ایم ایف کی ہدایات پر بجٹ تیار کیا گیا،ملکی تاریخ میں پہلی بار زراعت کا شعبہ بدترین بحران کا شکار ہے۔ سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ جوں کا توں ہے، بجٹ کا بڑا حصہ سڑکوں کی تعمیر کے لئے ہے۔ صافی پانی، صحت و تعلیم کے منصوبوں کے لئے پیسے کم رکھے گئے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کرنے اور سی پیک پر صوبوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ، منگل کو ایوان بالا میں جاری بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ بجٹ روایتی ہے، ٹیکس لگا کر نچلے طبقے پر بوجھ ڈالا گیا، بجٹ عجلت میں بنایا گیا، تمام حکومتی معاملات وزیر خزانہ چلا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ہدایات پر بجٹ تیار کیا گیا۔ سینیٹ کا کردار بجٹ میں بڑھانا آئینی تقاضا ہے، کرپشن ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اسے ختم کرنے کی کاوشیں کی جائیں۔ بجٹ میں غلط اعداد و شمار دیئے گئے، زراعت، صنعتیں بحران کا شکار ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا جائے، سی پیک پر صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے، مغربی روٹ کو ترجیح دی جائے جس کا وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا۔ مغربی روٹ پر عمل نہ کیا گیا تو چھوٹے صوبوں میں نفرت بڑھے گی۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ جو بجٹ پیش کیا گیا یہ زمینی حقائق کے منافی ہے۔ اس میں ایسے اقدامات تجویز نہیں کئے گئے جس سے عامی آدمی کو ریلیف ملتا۔ سیف اﷲ مگسی نے کہا کہ انڈائریکٹ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر بڑھ رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار زراعت کا شعبہ بدترین بحران کا شکار ہے۔ سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ادارہ جاتی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ ٹرانسمیشن سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک صوبے کا بجٹ نظر آتا ہے۔ اسلام آباد اپنے فیصلے بلوچستان پر مسلط کر رہا ہے۔ جھل مگسی مں نولنگ ڈیم کے لئے محض ایک کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو مذاق ہے۔ بجٹ کا بڑا حصہ سڑکوں کی تعمیر کے لئے ہے۔ صافی پانی، صحت و تعلیم کے منصوبوں کے لئے پیسے کم رکھے گئے ہیں۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ یہاں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کو بہت مراعات دی جا رہی ہیں۔ مزدور تک وہ لے کر آئیں گے۔ بجٹ میں کچھ اچھی چیزیں بھی ہیں، پراپرٹی ڈیلرز اور اس بزنس سے وابستہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے۔ چندی گڑھ میں یوریا پاکستانی روپے کے حساب سے 480 روپے فی بوری مل رہی ہے۔ بھارتی حکومت بہت سبسڈی دیتی ہے۔ ہمارے ہاں سبسڈی کے بعد بھی بہت مہنگی ہے۔ کیا قرضوں سے ملک چلے گا۔ سی پیک سرمایہ کاری اور قرضہ ہے۔ ہمیں یہ قرضہ چکانا ہے اور سرمایہ کاری پر وہ منافع لیں گے۔ ہمارا بینکنگ چینل بھی اس میں استعمال نہیں ہوگا۔ اسمنصوبے کے خلاف نہیں لیکن ہم نے اپنے مفاد کے مطابق ان منصوبوں کو حتمی شکل نہیں دی۔ محض ایک سڑک گذرنے سے ملک کی تقدیر کیسے بدلے گی۔ موٹر وے ایم ٹو سے ملحقہ علاقوں کے عوام کے لئے 20 سال میں کیا ترقی اور بہتری آئی۔ سینڈیک سے سونا نکلتا ہے لیکن اس علاقے کے عوام کی حالت ویسی ہی ہے۔ یہ سونا خام صورت میں چین لے جایا جاتا ہے۔ ہم آڈٹ بھی نہیں کر سکتے کہ کتنا سونا نکلا ہے۔ سینیٹ کے اختیارات کو بڑھایا جائے۔ فنانس کمیٹی کو تجاویز دیتے وقت ہمیں اپنے علاقوں کے لئے ایس ڈی پی سے آگے بڑھ کر پالیسی معاملات کو دیکھنا چاہئے۔(آچ)