خبرنامہ پاکستان

آئی جی بلوچستان سپریم کورٹ میں رو پڑے

اسلام آباد: (ملت+اے پی پی) سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس میں استفسار کیا ہے کہ کیا وفاقی وزارت داخلہ حکومت کا حصہ ہے یا کوئی الگ آزاد ادارہ ہے؟ اگر وزارت داخلہ وفاقی حکومت کا حصہ ہے تو اسکی طرف سے سانحہ کوئٹہ پر قائم کردہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر اعتراضات کیوں اٹھائے جارہے ہیں؟ آئی جی بلوچستان کمرہ عدالت میں جذباتی ہوکرروپڑے اور کہا کہ جوڈیشل انکوائری کمیشن میں موقف نہیں سنا گیا، آٹھ گھنٹے کھڑا رکھا گیا، کہا گیا کہ جاؤ ڈوب مرو، ہماری بھی کوئی عزت ہے، ہم بھی عوام کیلئے اپنی جان دیتے ہیں۔ آئی جی بلوچستان نے کہا کہ کیا صرف ججز کی عزت ہے؟ ہم ذلیل ہونے کیلئے رہ گئے ہیں، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کمیشن میں مجھے گالیاں دی گئیں، غیرمتعلقہ سوالات پوچھے گئے، کہا گیا کہ تم پر خدا کی لعنت ہو۔ جس پر عدالت نے کہا کہ جذباتی نہ ہوں قانون کا نفاذ آپ کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ روز جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے سانحہ کوئٹہ سے متعلق مقدمہ کی سماعت کی۔ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ سانحہ کوئٹہ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ جامع ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس میں پیش کی گئی سفارشات پر من وعن عملدرآمد ہو، اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ اس مقدمہ میں وزیر داخلہ نے وکیل مخدوم علی خان کی خدمات حاصل کی ہیں اور وہ پاناما لیکس کیس میں مصروف ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ کیا وزارت داخلہ آزاد ہے کہ اس نے الگ سے وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں۔ سرکاری وکیل رانا وقار نے کہا کہ چوہدری نثار حکومت کا حصہ ہیں انکے بارے میں کمیشن کی رپورٹ میں ریمارکس کی وجہ سے انہوں نے وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ کیا وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو اٹارنی جنرل آفس پر بھروسہ نہیں؟ جب اٹارنی جنرل پیش ہو رہے ہیں تو وزارت داخلہ کی جانب سے الگ سے کیوں وکیل پیش ہو رہے ہیں؟ عدالت یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ وزارت داخلہ کیوں اپنا وکیل پیش کر رہی ہے ۔ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کی نقول تمام صوبائی محکموں کو بھجوائی جائیں تاکہ وہ بھی اس پر اپنے اعتراضات دائر کر سکیں۔ اٹارنی جنرل خود پیش ہوکر بتائیں کہ وفاقی حکومت کوئٹہ کمیشن کی سفارشات پر عمل کریگی یا نہیں؟ عملدرآمد کروانا عدالت کا کام ہے۔ اس موقع پر بلوچستان حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت مانتی ہے کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ بہترین ہے لیکن حساس معاملات زیر بحث نہیں آنے چاہئیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ دکھ کی بات اور نااہلیت کی انتہا ہے، ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ رپورٹ بہترین ہے، دوسری جانب رپورٹ خفیہ رکھنے کی بات کی جارہی ہے۔ ہم واقعہ کے بعد وہاں گئے اور صورتحال دیکھی، وزیراعلیٰ نے ایک وارڈ کے افتتاح کا فیتہ کاٹا جبکہ وہاں پر مشین ہے نہ کوئی اور چیز تو فیتہ کاٹنے کا تکلف کیوں کیا گیا؟ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ سریاب روڈ 10 سے 15 کلومیٹر طویل ہے مگر روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ واقعہ کے بعد آئی جی کو وردی اتار دینی چاہئے تھی۔ آئی جی نے کہا کہ ان معاملات میں سیاسی رہنماؤں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، کیا سریاب روڈ پر کرفیو لگا کر بند کر دیں؟ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ یہ معاملہ کا حل نہیں ہے۔ آئی جی بلوچستان کے جذباتی ہونے پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کسی کی عزت نفس مجروح کرنے کا کسی کو حق نہیں، مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں اس کیلئے پیش بندی ضروری ہے، یہ کسی فرد واحد کا معاملہ نہیں اسے وسیع تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب کیلئے 3 دن کی مہلت کی استدعا کی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کے بارے میں استفسار کیا تو بتایا گیا کہ وہ پاناما کیس کی سماعت کیلئے گئے ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت 6 فروری تک ملتوی کر دی۔