خبرنامہ پاکستان

اسد درانی نے ای سی ایل سے نام خارج کرنے کیلئے درخواست دائر کردی

انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے ایگزسٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے اپنے نام کے اخراج کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

اسد درانی نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور پیشہ ورانہ ملاقاتوں کے سلسلے میں ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔

وفاقی حکومت نے 29 مئی کو پاک فوج کی درخواست پر اسد درانی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا تھا۔

خیال رہے کہ پاک فوج کی جانب سے یہ فیصلہ اسد درانی کے بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) کے سابق سربرا امرجیت سنگھ کے ہمراہ مشترکہ طور پر لکھی گئی کتاب کے حوالے سے وضاحت کے لیے 28 مئی کو جنرل ہیڈکوارٹرز میں طلبی کے بعد کیا گیا تھا۔

اسد درانی نے اپنے وکیل کے ذریعے دائر درخواست میں کہا ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ قابل فخر پاکستانی ہیں اور کسی اور ملک کی شہریت نہیں رکھتے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزار پاک آرمی سے 1993 میں تھری اسٹار جنرل کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے جرمنی اور سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت خدمات انجام دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسد درانی نے قومی اور عالمی سطح پر مختلف سیمینارز، کانفرنسز اور مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

درخواست میں سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست کے مطابق اسد درانی کا نام بغیر کسی نوٹس کے ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے اور ای سی ایل آرڈر میں ان کے خلاف جاری انکوائری کا ذکر کیا گیا ہے۔

ہائی کورٹ میں دائردرخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اسد درانی نے 5 ستمبر کو پاک آرمی کے ایڈجوئینٹ جنرل کو ان کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ وہ پیشہ ورانہ ملاقاتوں کے سلسلے میں باہر جانا چاہتے ہیں اور ان کی اہلیہ ملک سے باہر موجود اپنے پوتے اور پوتیوں سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جواب موصول نہ ہونے پر انہوں نے 13 ستمبر کو وفاقی حکومت سے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے درخواست کی تھی۔

انہوں نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ متعلقہ دونوں فریق ای سی ایل سے اسد درانی کا نام خارج کرنے کی درخواست کا جواب دینے میں ناکام رہے۔

وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسد درانی 25 سال قبل فوج سے ریٹائر ہوچکے ہیں اور ان پر آرمی ایکٹ 1952 لاگو نہیں ہوتا اس لیے ان کے خلاف شروع کی گئی انکوائری غیر قانونی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت اسد درانی کو قانونی طور پر کوئی پیشہ اختیار کرنے اور روزگار کا حق حاصل ہے، اسد درانی نے قومی اور عالمی اہمیت کے معاملات پر پاکستان کی نمائندگی کی اور اس کا دفاع کیا ہے اور انہیں ہیرات سلامتی مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جو 26 اور 27 اکتوبر کو افغانستان کے شہر ہرات میں ہوں گے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر اسد درانی کو سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو اس عالمی ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی نہیں ہوگی۔