خبرنامہ پاکستان

اسلام آباد دھرنے کے پپیچھے کون تھا؛ حقیقت سامنے آگئی

اسلام آباد دھرنے کے پپیچھے کون تھا؛ حقیقت سامنے آگئی
سلام آباد:(ملت آن لائن) ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد دھرنا معاہدے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام پر وضاحت طلب کرلی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی اور دھرنا ختم کرانے کے حوالے سے متفرق درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کیا دھرنے والوں سے حکومت کے معاہدے کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے جواب دیا کہ اس بات کا فوری جواب نہیں دے سکتا اور عدالت وقت دے تو جواب داخل کرادیں گے۔ ہائیکورٹ نے دھرنا معاہدے کی قانونی حیثیت پرکھنے کے لئے دو تجاویز دے دیں جن کے تحت معاہدے کو یا تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیر بحث لایا جائے یا پھر وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے معاہدے کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے تحریری حکمنامہ کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں دھرنے سے متعلق کیس زیر سماعت ہے، جب تک سپریم کورٹ کوئی فیصلہ نہیں سناتی، اس کیس میں کوئی کارروائی نہ کی جائے، لہذا سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک ہائیکورٹ مزید کوئی قابل ذکر حکم جاری نہیں کرے گی۔
تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل دھرنا مظاہرین کے ساتھ معاہدے کی آئینی اور قانونی حیثیت سے آگاہ کریں جب کہ سیکرٹری دفاع آرمی چیف کا نام استعمال کرنے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کریں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے پارلیمنٹ میں معاہدہ زیر بحث لانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے کو خود دیکھیں گے، دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ نے بھی ازخود نوٹس لیا ہے، معاہدے میں فوج کی ثالثی پر قانونی معاونت کے لئے وقت درکار ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مساجد اور مدارس سے کفر کے فتوی بند کروائے جائیں، خادم رضوی خون کیسے معاف کر سکتے ہیں؟، تحریک لبیک کا دوسرا گروپ کہہ رہا ہے کہ انہوں نے کروڑوں روپے لئے، دھرنا قائدین اور منتظمین خود توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ بتایا جائے کہ معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا؟، معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں ہے، دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کیسے ختم کئے جاسکتے ہیں؟، مجروح میں ہوا زخمی میں ہوا ، ریاست کون ہوتی ہے فیصلہ کرنے والی؟، عدالت اس معاہدے کی توثیق نہیں کرسکتی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پولیس والوں کو دھرنے میں مارا گیا، ان کے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں اور انہیں 4 ماہ کی اضافی تنخواہیں دینی چاہئیں، جب تک ایک ایک پولیس والے کو سہولیات نہیں دی جاتیں یہ مقدمہ ختم نہیں ہوگا، ریاست کا فرض ہے کہ ہر بندے کی نگہداشت ہو، پولیس والوں کے ساتھ جو ہوا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، اس کا کیا ہو گا، جو سرکاری املاک کا نقصان ہوا اسکا ازالہ وفاقی اور صوبائی حکومت کرے گی۔ اسلام آباد انتظامیہ اور آئی بی کی جانب سے دھرنے سے متعلق رپورٹس عدالت میں جمع کرادی گئیں جبکہ بیرسٹر ظفراللہ نے ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم کی انکوائری سے معذرت کر لی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیرسٹر ظفراللہ کو معاملے کی انکوائری کر کے رپورٹ دینے کا حکم دیا تھا۔ کیس کی سماعت 12 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔