خبرنامہ پاکستان

افغانستان میں درپیش مسائل کیلئے پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے، سرتاج عزیز

واشنگٹن ۔(اے پی پی) وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغانستان میں درپیش مسائل کیلئے پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں کونسل آن فارن ریلیشنز کے زیراہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیرخارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ افغان حکام اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت دو ہفتوں میں شروع ہوجائے گی اور اس سے افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کو استحکام ملے گا۔ مشیرخارجہ نے مزید کہا کہ یہ غلط فہمی ابھی تک موجود ہے کہ پاکستان بعض گروپوں کی حمایت کررہا ہے اور طالبان سے ہمدردی رکھنے والے اب بھی موجود ہیں، اس غلط فہمی کو دور کیا جانا چاہئے کیونکہ گذشتہ دو سال کے دوران جس طریقے سے ہم نے اس عمل کو آگے بڑھایا ہے اس کا نقطہ آغاز بے حد واضح ہے کہ جب تک افغانستان میں امن نہیں ہوتا پاکستان میں بھی امن نہیں ہوسکتا اور افغانستان میں امن کی بحالی اتنی ہی اہم ہے جتنا افغانیوں کے لئے امن اہم ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی اتفاق رائے ہو، افغان صدر اشرف غنی نے اقتدار سنبھالنے کے دو ماہ بعد گذشتہ سال نومبرمیں پاکستان کا دورہ کیا اس موقع پر باہمی تعلقات کی درست سمت میں آگے بڑھنے کی فحا بنی اور فریقین نے مفاہمت کا عمل شروع کرنے کیلئے اچھے انتظامات کئے لیکن مزاحمت کی کارروائیوں میں اضافے سے اس عمل کو دھچکا لگا اگرچہ بین الاقوامی فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافے کی توقعات تھیں لیکن یہ کارروائیاں توقعات سے بھی بڑھ گئیں اور بات چیت شروع کرنے میں تاخیر ہوئی، اس سے یہ غلط تاثر پیدا ہوا کہ افغانستان میں مزاحمتی کارروائیوں میں اضافے کے ذمہ دار ہم ہیں جبکہ حقیقی صورتحال یہ تھی کہ ایساف کے فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد طالبان اپنا کنٹرول مضبوط کرنا چاہتے تھے، انہوں نے مزاحمت سے نمٹنے کیلئے افغان فورسزکی کارکردگی کی تعریف کی اورکہا کہ افغان فورسز کی کارکردگی نے سب کو اس بات پر قائل کرلیا کہ طالبان افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل نہیں کرسکتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ مراحمتی کارروائیاں کئی سال تک جاری رکھنے کی ان لوگوں کی صلاحیت ابھی تک موجود ہے۔ مشیرخارجہ نے کہا کہ مفاہمت کے بغیر مزاحمتی کارروائیوں کو روکا جاسکتا ہے نہ پائیدار امن کا حصول ممکن ہے، جولائی میں افغان حکومت کے نمائندوں اورطالبان کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات جس کی میزبانی پاکستان نے کی تھی، ایک اچھا آغاز تھا، یہ ملاقات دوستانہ ماحول میں ہوئی اور طرفین نے چند ہفتوں میں دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا لیکن افغان حکومت کی طرف سے طالبان رہنما ملا عمرکے انتقال کے اعلان نے اس عمل کو پھر پٹڑی سے اتاردیا۔ چار فریقی گروپ جس میں پاکستان، افغانستان، چین اور امریکا شامل ہیں، نے اپنے چوتھے اجلاس میں تفصیلی بحث مباحثے کے بعد اس حوالے سے ایک روڈ میپ بنایا ہے اور امید ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ دن میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ملاقات ہوگی اگرچہ یہ عمل آسان نہیں ہوگا لیکن صورتحال مستحکم رہی تو کچھ پیشرفت ہوسکتی ہے جس کے تحت طالبان مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل نہ کرنے پر آمادگی کا اظہار کریں بلکہ مذاکرات کے دوران طالبان کیلئے مزید حقائق واضح ہونے پر مفاہمت کے امکانات بھی واضح ہونگے۔ ایک سوال کے جواب میں مشیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان کا طالبان پر کچھ حد تک اثرو رسوخ ہے اورحکومت انہیں مذاکرات کی میزپرلانے کیلئے دباؤ ڈال سکتی ہے لیکن پاکستان کی حکومت افغان حکومت کی طرف سے مذاکرات نہیں کرسکتی کیونکہ جو افغان حکومت طالبان کو دے سکتی ہے پاکستانی حکومت نہیں دے سکتی۔ مشیرخارجہ نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی حکومت نے انتہا پسندی اوردہشت گردی جیسے مسائل کو حل کرنے کیلئے اقدامات کئے ہیں کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستانی معیشت کو100ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا بلکہ 60 ہزار جانیں بھی ضائع ہوئیں، موجودہ حکومت نے اڑھائی سال میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں کے نتیجہ میں 12ہزار ایسے انتہا پسند اور دہشت گرد گرفتار کئے گئے جو قبائلی علاقوں سے فرار ہوکر کراچی پہنچے تھے اور اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے ،جون2014ء میں شروع کئے گئے ضرب عضب آپریشن کے نتیجہ میں سب سے بڑی قبائلی ایجنسی شمالی وزیرستان میں95 فیصد علاقے کو کلیئرکرالیا گیا ہے، اس علاقے میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے، 2015ء میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں2014ء کے مقابلہ میں نصف رہ گئیں، حکومت اب غیررجسٹرڈ مدارس کے مالیاتی ذرائع کو ختم کرنا چاہتی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ یا وہ رجسٹریشن کرائیں بصورت دیگر ان کو بند کردیا جائے ۔ دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک جیسے بعض گروپس کی باقیات اب بھی مختلف مقامات پر بکھری ہوئی صورت میں موجود ہیں اور وہ افغانستان اور وہاں کی فورسز کیلئے خطرہ ہیں جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس نے ان گروپس کے خلاف ایک ایک کرکے کارروائی شروع کی کیونکہ سب گروپوں کے خلاف ایک ساتھ کارروائی استعداد کی کمی اور ردعمل کے خدشہ کی وجہ سے ممکن نہیں تھی لیکن اس صورتحال میں شمالی وزیرستان میں ان کا انفراسٹرکچر تباہ کردیا گیا اگرچہ ان گروپوں کی کچھ باقیات بکھری ہوئی شکل میں موجود ہوسکتی ہیں لیکن ان کی زیادہ تر استعداد افغانستان کے اندر ہے۔ مشیر خارجہ نے کہا کہ چار فریقی گروپ کے روڈ میپ کے تحت تمام گروپوں کو مذاکرات کی دعوت دینے کی ضرورت ہے لیکن جو گروپ مذاکرات میں شرکت سے انکار کریں ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔