خبرنامہ پاکستان

الیکشن میں کیا کچھ ہوتا ہے سب جاتنا ہوں، بات کی تو میڈیا سرخیاں بنا دے گا،چیف جسٹس

اسلام آباد:(اے پی پی) چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتخابات میں کیا کچھ ہوتا ہے سب کچھ جانتا ہوں لیکن بات کروں گا تو میڈیا کی سرخیاں بن جائیں گی۔ ججوں میں ذاتی تشہیراور خودنمائی کی ریت پڑ گئی ہے جس سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے، فل بینچ نے این اے 122لاہور کے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق پر 24لاکھ روپے ہرجانہ عائد کیے جانے کے خلاف درخواست پر الیکشن کمیشن سے وضاحت طلب کر لی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ٹریبونل کے فیصلے کے تحت ازسرنو الیکشن ہوچکاہے اور اپیل کنندہ دوبارہ منتخب ہوگیاہے لیکن ہرجانے کی حدتک معاملہ مبہم ہے اس لیے الیکشن کمیشن اس پر اپنامؤقف دے۔ ایاز صادق کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیے کہ الیکشن کی حد تک تو معاملہ ضرور غیرموثر ہوچکاہے لیکن الیکشن ٹریبونل نے ایک طرف الیکشن عملے کو بے قاعدگیوں کا ذمے دار ٹھہرایا اور دوسری طرف ہرجانہ ان کے موکل پرعائد کیا، جب الیکشن مشینری ذمے دارہے تو ہرجانہ بھی الیکشن کمیشن سے لیا جائے۔ ان کے موکل کی ذات پر دھبہ کیوں لگایا گیا؟ فیصلے میں غیرضروری لفاظی کی گئی کہ وہ نظریہ ضرورت کو نہیں مانتے، معاملہ بڑے آدمی کاہے تو بے قاعدگیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ کوئی جانور نہیں، فیصلہ ضمیر کے مطابق دیں گے،یہ لکھنے کی کیاضرورت تھی۔اس طرح انھوں نے اپنی جانبداری ثابت کردی، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ سوالات تو جج صاحب نے خود سے پوچھے ہیں، اس سے ان کی جانبداری ثابت نہیں ہوتی لیکن ججوں میں ذاتی تشہیر اورخود نمائی کی ریت پڑ گئی ہے جس سے عدلیہ کی ساکھ کونقصان پہنچ رہا ہے۔ الیکشن تنازعات سیدھے سادے اور قانون و حقائق پر مبنی ہوتے ہیں جن میں اکیڈمک بحث کی ضرورت نہیں ہوتی، چندصفحات میں فیصلہ دے دیا جاناچاہیے لیکن آجکل ججوں میں یہ مقابلہ ہے کہ کون سب سے لمبافیصلہ لکھے گا،کس کا فیصلہ ہزاراور کس کا 1500صفحات کا ہوگا،اگر اللہ نے جج کے ہاتھ میں قلم دیا ہے تو اپنا اختیار انصاف دینے کیلیے استعمال کرے، غیرمتعلقہ چیزیں لکھنے سے گریز کرے،فیصلے لکھنے میں لفاظی کی ضرورت نہیں ہوتی، حقائق دیکھ کر قانون پر فیصلہ کرلیں اوراسے لکھ ڈالیں، زیادہ سے زیادہ 14صفحات کا فیصلہ ہوگا،دیکھا جائے توانتخابی عذرداریوں کے فیصلے بہت مختصر ہوا کرتے تھے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلے میں اپیل کنندہ کی ذات کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں جبکہ ہرجانہ عائد کرنا ٹریبونل کی صوابدید ہے۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ لیکن جو غلطی کرے گاہرجانہ بھی اس سے لیا جائے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں تو یہ نہیں لکھا کہ ہرجانہ اپیل کنندہ ادا کرے گا۔ شاہد حامد نے کہا کہ ان کا موکل اس کیس کا فریق ہے لہذا ہرجانہ اسے ادا کرنا پڑے گا،چیف جسٹس نے کہا کہ کیس میں تواور بھی فریق ہیں۔شاہد حامد نے دلیل دی کہ اگر عدالت آبزرویشن دے کہ ہرجانے کاحکم ان کے موکل کیلیے نہیں ہے تو وہ اپنی درخواست واپس لے لے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہرجانے کا معاملہ واضح ہوناچاہیے کہ اگر اپیل کنندہ پر اس کااطلاق نہیں ہوتا تو کس پر ہوناچاہیے۔ انھوں نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص الیکشن اخراجات برداشت کر نے کے بعدبے قاعدگیوں کی وجہ سے ہار جائے توازالہ اس کاحق ہے،کل آپ کے اپنے کیس میں اگر نادراکی رپورٹ آپ کے حق میں آجائے تو آپ بھی ہرجانہ مانگیں گے، اس لیے ہرجانہ اس کو دینا چاہیے جس نے غلطی کی ہو۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ضمنی الیکشن پر 15 سے 20 کروڑ روپے ریاست کے خرچ ہوجاتے ہیں،اس لیے کسی اور کی بے قاعدگیوں کا بوجھ ریاست کو برداشت کرنا پڑ جاتا ہے،الیکشن بے قاعدگیوں کے بارے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کوواضح ہدایات دی ہیں اور خامیاں دور کرنے کا کہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنی خامیاں دور کرکے آئندہ انتخابات میں اسے نہیں دہرائے گا۔حامد خان نے کہا کہ رات کی تاریکی میں لوگ الیکشن چراتے ہیں،ذمے داروں کوجرمانہ تو دینا پڑے گا۔اے پی پی کے مطابق حامد خان نے کہاکہ انتخابی عملہ خودغلطی نہیں کرتا، اس کے پیچھے دیگر لوگ کام کرتے ہیں،دھاندلی کی جائے یا کچھ اور،کامیاب شخص تو5 سال مزے لوٹتاہے جبکہ مخالف دھکے کھاتا پھرتاہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں خود پانچ چھ مہینے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر رہ چکا ہوں، مجھے پتہ ہے الیکشن میں کیا کچھ ہوتاہے لیکن کچھ اس لیے نہیں کہوں گا کہ میڈیا کی سرخیاں بن جائیں گی۔مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلیے ملتوی کردی گئی۔