خبرنامہ پاکستان

قومی اسمبلی میں امریکا کی افغان پالیسی پر بحث

امریکا کی افغان پالیسی پر بحث کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس
اسلام آباد(آن لائن)امریکا کی نئی افغان پالیسی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات پر بحث کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔

اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں امریکا کی نئی افغان پالیسی پر ارکان ایوان میں اظہار خیال کر رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر الزامات لگائے گئے جسے یک زبان ہو کر مسترد کیا، وزیر خارجہ کو ان حالات میں دوست ممالک جانا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ٹرمپ نے ہم پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگایا لیکن ہم تو دہشت گردی کے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘صدر ٹرمپ کا حافظہ کمزور ہوسکتا ہےلیکن تاریخ کا نہیں، کیا امریکا نے ماضی میں پاکستان کے کردار کی تعریف نہیں کی، امریکی صدر کوئی ایک ملک بتا دیں جو پاکستان سے زیادہ دہشت گردی کی جنگ میں لقمہ اجل بنا ہو’۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں امن بذریعہ دلی نہیں آسکتا، افغانستان کے امن سے پاکستان کا مستقبل جڑا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے چند سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بارڈر مینجمنٹ پالیسی پر امریکا پانی پھیرتا رہا، افغانستان میں ہزاروں ایکڑ پر منشیات کاشت ہوتی ہے کیا یہ پاکستان کاشت کراتا ہے، افغانستان میں منشیات کی کاشت ختم کرنیکی ذمے داری کیا پاکستان کی ہے اور کیا اشرف غنی اور عبد اللہ عبداللہ میں رسہ کشی کا ذمے دار پاکستان ہے۔

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی ایوان میں اظہار خیال کیا جن کا کہنا تھا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ 4 سال میں ہماری خارجہ پالیسی کمزور کیوں ہوئی، اپنی غلطیوں سے ہم پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن گنوا چکے ہیں اور اب ہمارے ہمسایہ ممالک ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں۔

خورشید شاہ نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کی بہت اہمیت ہے لیکن جذبات میں آکر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے اور ہمیں جذبات میں آکر توپیں کھڑی نہیں کرنی چاہییں۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ امریکا الزامات لگاتا ہے لیکن ثبوت نہیں دیتا، ہم جنگوں سے نہیں جیت سکتے، سفارتی کور کے ذریعے ہی جنگ جیتنی چاہیے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ 1965 کی جنگ میں مسلم ممالک ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے لیکن وہ ممالک آج ہمارے ساتھ کیوں نہیں کھڑے، صرف چین نے امریکی پالیسی پر پاکستان کے حق میں رد عمل دیا، ایران اور دیگر مسلم ممالک آج کہاں ہیں اور آج کوئی ہماری بات سننے کو تیار کیوں نہیں ہے۔
سابق ہائی کمشنرعبدالباسط نے اعزاز چوہدری کو بدترین سفیر قرار دیدیا

خورشید شاہ نے کہا کہ معاشی پالیسی کمزور ہو تو خارجہ پالیسی بھی کمزور ہوتی ہے، پاکستان کے لئے پارلیمنٹ اور عوام کو ایک ساتھ کھڑے ہو کر بات کرنی چاہیئے۔

قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ یہ کیوں ہوا کہ بھارت میں بیٹھا سفیر امریکا میں پاکستانی سفیر کو خط لکھتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ کوئی دیکھنے والا نہیں، یہ گورننس کی ناکامی ہے، یہ خط بھارت اور واشنگٹن والوں کو بھی پہنچ گیا ہوگا۔

سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا پاکستان مخالف بیان پوری قوم کے لیے تضحیک آمیز ہے جسے سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے، پاکستان کو یہاں پہنچانے میں دشمنوں کا جتنا کردار رہا ہے اتنا اپنا کردار بھی ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ اپنا بیانیہ ہم نے خود خراب کیا اور ہم نے بیرونی طاقتوں کو اپنے ملک میں راستہ بنانے کا موقع فراہم کیا، کوئی آزاد اور خودمختار ملک اپنے سرزمین پر راستے نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قرارداد سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، اس مسئلے کا حل ڈسپرین کی گولی نہیں بلکہ اس کی سرجری کرنا پڑے گی۔

چوہدری نثار نے کہا کہ افغانستان میں امریکا اور اس کے حواریوں کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، امریکا پاکستان سے پوچھ کر افغانستان میں نہیں آیا، امریکا کی 16 سال کے دوران فوجی، سیاسی، ڈائیلاگ اور امن کی پالیسی افغانستان میں ناکام ہوگئی ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ امریکا خود مذاکرات کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کرے تو مخالفت کرتا ہے، ہمیں محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے، محاذ آرائی وہ کرتا ہے جس کے پاس دلائل نہ ہوں، ہمیں حقائق اور دلائل سے مقابلہ کرنا چاہیے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، اس بات کو منطقی انجام تک پہنچائیں کہ محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں یا پاکستان میں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیرمین سینیٹ امریکا میں اپنے ہم منصبوں کو خطوط لکھیں اور کمیٹی بنائی جائے جو افغانستان میں ان ٹھکانوں کی نشاندہی کرے جہاں کارروائیاں ہوتی ہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے متعلق امریکی صدر کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں، اب جب محفوظ پناہ گاہیں نہیں تو امریکا الزامات لگا رہا ہے، جب پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں تھیں تو امریکا فوجی آمروں کو ڈالرز دیتا تھا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امریکی پالیسی کا جواب مظاہرہ کر کے دیا جارہا ہے جب کہ میڈیا پر دفتر خارجہ سے متعلق خبریں شرمناک ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ حکومت پاکستان امریکا کے ساتھ بیک ڈور چینل کھولے افغانستان میں لڑنے والے تمام 40 ممالک امریکا کے زیر اثر ہیں۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کے اسلامی دنیا سے تعلقات اتنے برے نہیں تھے جتنے آج ہیں، دنیا میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس کے ڈانڈے پاکستان سے نہ ملتے ہوں، پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد پکڑے گئے اور مارے گئے۔

شیخ رشید نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ہمیں اندرونی طور پر مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 22 اگست کو پاکستان، افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔

صدر ٹرمپ کا پالیسی اعلان کے موقع پر خطاب کے دوران کہنا تھا کہ پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے، پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔

پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے سے پاکستان کو فائدہ اور دوسری صورت میں نقصان ہوگا۔

امریکی صدر نے اپنے خطاب میں بھارت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کے معترف ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرے۔