خبرنامہ پاکستان

امریکی سینیٹر جان میکین کا دورہ ۔۔۔۔۔اسداللہ غالب

یہ ایک فرد کا دورہ نہیں تھا بلکہ ایک وفد کا دورہ تھا۔جان میکین خود بھی سینیٹر ہیں ، ان کے ہمراہ کئی سینیٹرز اور بھی تھے، جان میکین ایک ایسی کمیٹی کے سربراہ ہیں جو اپنے ملک کی دفاعی پالیسی سازی میں اہم اور بنیادی کردارا دا کرتی ہے۔اگر امریکی کانگرس یہ کہتی ہے کہ آئندہ پاکستان کو دفاعی امداد بعض شرائط کے ساتھ ملے گی تو سمجھئے کہ یہ فیصلہ پہلے اسی کمیٹی نے کیا تھا مگر اب پاکستان کے دورے کے بعد اس کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ واپس جا کر اپنی کانگرس کو اس فیصلے پر نظر ثانی کے لئے کہیں گے ا ور پاکستان کی امداد سے شرائط ہٹوانے کی کوشش کریں گے۔ اس دورے سے پاکستان کو یہ پہلی بڑی کامیابی ہے جسے نظرا نداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس دورے میں یہ بھی پتہ چل گیا کہ پاکستان کون چلا رہا ہے، امریکی وفد پہلے تو ایئرپورٹ سے سیدھا آرمی ہاؤس گیا، بات چیت کی، کھانا بھی کھایا، اگلے روز اس نے سویلین قیادت سے ملاقاتیں کیں جن میں سرتاج عزیز نمایاں تھے۔اس سے یہ بھی ثابت ہو اکہ حکومت چلانے کے لئے ایک خود کار میکنزم موجود ہے جس میں وزیراعظم کی عدم موجودگی سے چنداں فرق نہیں پڑتا کیونکہ دفاعی پالیسی کے پیرا میٹرز پہلے سے طے شدہ تھے، ان کے لئے کسی سے ہدائت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ان کی حدود میں رہتے ہوئے فوجی ا ور سول قیادت نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔
امریکی وفد کو خاص طور پر میران شاہ لے جایا گیا، میں نے یہ بات انتہائی سہل انداز میں لکھ دی، لیکن میران شاہ جانے کا مطلب جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے،ضرب عضب سے پہلے یہاں کوئی باہر کا شخص قدم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف جلوس نکالا تھا تو اسے فوج نے ایک مقام سے آگے جانے سے روک دیا تھا کیونکہ یہ ایک حد تھی جس سے آگے پاک فوج بھی کسی کی سیکورٹی کی ذمے داری قبول نہیں کر سکتی تھی، مگر ضرب عضب کی کامیابی کے بعد یہاں وزیر اعظم بھی جا چکے ہیں ا ور اب یہ وقت بھی آیا ہے کہ امریکہ کا اعلی سطحی وفد بھی میران شاہ میں قدم رکھنے سے نہیں ہچکچایا۔
ضرب عضب سے پہلے میران شاہ کی ہیبت کیوں تھی، اس کے تصور ہی سے ہڈیوں میں گودا کیوں جم جاتا تھا۔ا سلئے کہ یہاں دہشت گردوں کا جی ایچ کیو قائم تھا، جدید ٹیکنالوجی کا وہ سار انظام بھی تھا جس سے لوگوں کو دھمکیاں جاری کی جاتی تھیں، خود کش حملوں کی ذمے داری قبول کی جاتی تھی، بھتے کا مطالبہ کیا جاتا تھا ور یہیں پر ایک دکان نما دفتر تھا جہاں ایک تختہ رکھا ہوتا تھا،ا س پر یرغمالیوں کو لٹا کر خلق خدا کے سامنے ذبح کیا جاتا تھا ور پھرا سکی تڑپتی لاش کو بکرے کی صورت کئی روز کے لئے الٹا لٹکا دیا جاتا تھا تاکہ باقی دنیا کو اس کے انجام سے عبرت پکڑنے کا موقع مل سکے۔اسی شہر کی غاروں میں گولے بارود کا ذخیرہ تھا، خود کش جیکٹیں یہیں سے تقسیم کی جاتی تھیں، دھماکوں کے لئے خود ساختہ بم بھی برائے فروخت موجود تھے، ہر بم کے ساتھ یہ معلومات بھی درج ہوتی تھیں کہ اس سے کتنے لوگوں کو ہلاک کیا جا سکتا ہے۔
میران شاوہ علاقہ تھا جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ یہاں باد صر صر بھی ڈر ڈر کے قدم رکھتی تھی۔
امریکی وفد کے علم میں یہ سب کچھ تھا مگر جب اس نے آنکھوں سے دیکھا کہ وہ تو یہاں موجود ہے ، اسے اپنی آنکھوں پر اول اول تو یقین نہیں آیا ہو گا۔
مگر پاک فوج کی قربانیوں کے نتیجے میں اب میران شاہ کی ہیبت کافور ہو چکی تھی ا ور یہ ایک خطہ امن کی صورت اختیار کر چکاہے۔ورنہ امریکی وفد یہاں اترنے کا خیال بھی دل میں نہیں لاسکتا تھا۔
اس تجربے نے امریکی وفد کو احساس دلایا کہ پاک فوج نے کیا معرکہ سر کیا ہے، ایسامعرکہ جسے دنیا کی کوئی فوج سر نہیں کر سکی۔
امریکیوں نے پاک فوج اورا سکے شہدا کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کیا۔
اسی تجربے نے امریکی وفد کا احساس دلایا کہ پاک فوج کی قربانیوں کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ افغان سرحد کی مؤثر نگرانی کا نظام وضع کیا جائے۔یہ ضرب عضب کا اگلا مرحلہ ہے۔امریکی وفد نے اس مرحلے کی بھرپور تائید کی۔
لگتا ہے کہ افغانستان تنہا رہ گیا ہے۔
اور لگتا ہے کہ پاکستان کی تنہائی کا احساس ماند پڑ گیا ہے۔
امریکہ جس کے ساتھ ہو، وہ کیسے تنہا ہو سکتاہے، جرمن ریڈیو کے ساتھ انٹرویو میں پاک فوج کے ترجمان نے جس تنہائی کی طرف اشارہ کیا تھاا ور دنیا سے کہا تھا کہ وہ اگلے مرحلے میں اپنا کردار فراموش نہ کرے اور پاکستان کو تنہا نہ چھوڑے، لگتا ہے، یہ بات کم از کم امریکیوں کے دل پر اثر کر گئی ہے۔
میرے خیال میں اس دورے کا حاصل یہی ہے ، باقی تو فروعی باتیں ہیں مگر ان کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، پاکستان نے ڈرون حملوں کے خلاف بھرپور احتجاج نوٹ کروا دیا ہے، بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت تسلیم کرو الی ہے ، امریکہ پر واضح کر دیاہے کہ بھارت کی طرفداری غیر منطقی ہے اور جواب میں سینیٹرمیکین نے بھی اطمینان دلایا کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ا ور معاہدے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ سینیٹر میکن نے یہاں تک کہہ د یاکہ پاکستان کا دشمن امریکہ کا دشمن تصورکیا جائے گا۔
تو امریکہ سے ا ورکیا چاہئے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ امریکہ کی چکنی چپڑی باتیں ہم نے ہمیشہ سنیں اور ہمیشہ ہی اس کی بیوفائی کا تماشہ دیکھا، ضرورت پڑنے پرا س کا بحری بیڑہ آبنائے ملاکا سے آگے نہ بڑھ سکا اور سیٹو اور سنٹو کے معاہدے ہمارا منہ چڑاتے رہے۔
مجھے امریکہ کی وکالت نہیں کرنی بلکہ میں تو امریکی بے وفائی کا سخت نقاد ہوں مگر سینیٹر جان میکین کے دورے میں کوئی ایسا نکتہ سامنے نہیں آیا جس میں مایوسی کا کوئی پہلو ہو۔
کیوں نہیں،ا سلئے کہ ہمارے شہدا نے اپنا خون ایک عظیم مقصد کے لئے قربان کیا، شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
کاش! جو کچھ سینیٹر جان میکین نے محسوس کیا ہے،اسے وہ اپنی حکومتی پالیسیوں کا حصہ بھی بنائیں۔