خبرنامہ پاکستان

ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کیلئے کوئی این او سی جاری نہیں کیا گیا

اسلام آباد(آئی این پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں و زارت پٹرولیم حکام نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں بنڈل آئیس لینڈ پر ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کیلئے کوئی این او سی جاری نہیں کیا گیا، تمام فریقین سے مشاورت کے بعد این ا و سی دیا جاتاہے،پورٹ قاسم اتھارٹی اور وزارت دفاع حکام نے بھی و زارت پٹرولیم حکام کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بنڈل آئیس لینڈ پر ایل این جی کی کوئی درخواست نہیں کی گئی، ایل این جی زون میں اینگرو پاکستان گیس، گلوبل کو این او سی جاری کئے ہیں،لیکن بنڈل سے 10 کلو میٹر دور آج تک کوئی درخواست نہیں آئی اگر درخواست آئی تو کمیٹی کے خدشات کو مدنظر رکھ کر جوائنٹ ہیڈ کوارٹر ،جی ایچ کیو،ایئر فورس،افواج پاکستان اور نیوی سے بھی رابطے کے بعد فیصلہ کرینگے،پورٹ قاسم اتھارٹی نے کوئی این او سی نہیں دیا اور نہ ہی ماسٹر پلان میں ایسا کوئی منصوبہ موجود ہے،کمیٹی نے حکومت سے میٹ آفس کو وزارت موسمیات میں شامل کرنے،میٹ آفس کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کیلئے 19ارب کے آلات خریداری کیلئے وزیر اعظم آفس کو بھجوائی گئی سمری فوری منظور کرنے اور فلڈ پروٹیکشن کمیشن کو فعال کرنے کی سفارش کر دی جبکہ بنڈل آئیس لینڈ پر ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کے معاملے کو دیکھنے کیلئے 3رکنی ذیلی کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا جو 2ماہ میں اس حوالے سے اپنی رپورٹ کمیٹی کو پیش کرے گی، ذیلی کمیٹی کے ممبران کے ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ گوادر میں پہلے ہی ایل این جی ٹرمینل موجود ہے اسی کو پاک ایران گیس لائن سے منسلک کر دیا جائے،ایل این جی ٹرمینل کے کو رنگی ایئر بیس پر بھی اثرات پڑینگے، متبادل کے طور پر پاک ایران گیس لائن کے قطر کو بڑھا کر منسلک کیا جا سکتا ہے،جی آئی ڈی سی 72فیصد سندھ سے لیا جا رہا ہے، سندھ کا ماحول تباہ کر کے سزانہ دی جائے،سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ عموما پہلے پیش بندی یا منصوبہ بندی نہیں کی جاتی، میٹ آفس کی وزیر اعظم کو بھجوائی گئی 19ارب کی سمری کی منظوری کیلئے کمیٹی او رچیئرمین اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں ،8 سال سے فلڈ پروٹیکشن کمیشن میں تاخیر مذاق ہے ،سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ مچھیروں نے شکایات کی ہیں کہ آبی حیوانات مستقل خطرہ میں آرہی ہیں جوٹرمینل بنایا جا رہا ہے اس کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں کیا اندازہ کیا گیا کس سطح پر فیصلے ہوئے ایل این جی ٹرمینل سے سمندری زندگی کو نقصان پہنچے گا ، مینگرو سسٹم اور میرین لائف کیلئے بھی کھلی بحث ہونی چاہئے ۔منگل کو سینیٹ قائمہ کمیٹی موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد یوسف بادینی کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹرز مشاہد حسین سید،تاج حیدر،شیرین رحمان، ستارہ ایاز،نزہت صادق،گل بشرہ،سلیم ضیاء،احمد حسن،ثمینہ عابدکے علاوہ سیکرٹری وزارت موسمیات ابو عاکف،وزارت پٹرولیم ،ڈیفنس، دفتر موسمیات کے اعلی حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں شہدائے کوئٹہ کے ایصال ثواب کیلئے دعا کی گئی اور کراچی میں میڈیا دفاترپر ہونے والے حملوں کی مذمت بھی کی گئی۔ کمیٹی کے اجلاس میں بنڈل آئیس لینڈ پر ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر میں رکاوٹوں اور دفاعی ڈھانچے کے علاقے پر تعمیر سینیٹر کلثوم پروین کی طرف سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ موسمیاتی آگاہی دفترکی رابطہ کاری این ڈی ایم اے کے بارے میں تفصیلی بریفنگ کے ایجنڈے پر تفصیلی غورو خوض ہوا۔ سینیٹر شیرین رحمان نے کہا کہ مچھیروں نے شکایات کی ہیں کہ آبی حیوانات مستقل خطرہ میں آرہی ہیں جوٹرمینل بنایا جا رہا ہے اس کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں کیا اندازہ کیا گیا کس سطح پر فیصلے ہوئے ایل این جی ٹرمینل سے سمندری زندگی کو نقصان پہنچے گا ۔ مینگرو سسٹم اور میرین لائف کیلئے بھی کھلی بحث ہونی چاہئے حساس تنصیبات موجود ہیں ان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ کو رنگی ایئر بیس پر بھی اثرات پڑینگے۔ متبادل کے طور پر پاک ایران گیس لائن کے قطر کو بڑھا کر منسلک کیا جا سکتا ہے ۔جی آئی ڈی سی 72فیصد سندھ سے لیا جا رہا ہے سندھ کا ماحول تباہ کر کے سزا نہ دی جائے اور گوادر ٹرمینل کو پاک ایران گیس لائن کے ساتھ جوڑ کر جلد مکمل کیا جائے جس کے طویل المدت فائدے ہونگے اور ٹرانسپورٹیشن اخراجات کم ہونگے۔مسقط گوادر سے 50کلومیرٹر فاصلے پر ہے سب میرین پائپ لائنیں بھی ڈالی جا سکتی ہیں۔ وزارت پٹرولیم حکام نے آگاہ کیا کہ اس جگہ پر ایل این جی کا کوئی پراجیکٹ نہیں تمام سٹڈی مکمل کرنے کے بعد تمام فریقین سے مشاورت کے بعد این ا و سی دیا جاتاہے۔پورٹ قاسم اتھارٹی کے حکام نے بھی کہا کہ اتھارٹی نے کوئی این او سی نہیں دیا اور نہ ہی کوئی ماسٹر پلان میں منصوبہ موجود ہے۔جس پر سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ گوادر میں پہلے ہی ایل این جی ٹرمینل موجود ہے اسی کو پاک ایران گیس لائن سے منسلک کر دیا جائے۔وزارت دفاع حکام نے کہا کہ بنڈل آئیس لینڈ پر ایل این جی کی کوئی درخواست نہیں کی گئی ایل این جی زون میں اینگرو پاکستان گیس، گلوبل کو این او سی جاری کئے ہیں۔بنڈل سے دس کلو میٹر دور آج تک کوئی درخواست نہیں آئی اگر درخواست آئی تو کمیٹی کے خدشات کو مدنظر رکھ کر جوائنٹ ہیڈ کوارٹر ،جی ایچ کیو،ایئر فورس،افواج پاکستان اور نیوی سے بھی رابطے کے بعد فیصلہ کرینگے۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ عموما پہلے پیش بندی یا منصوبہ بندی نہیں کی جاتی انرجی ،انوائرمنٹ،ڈیفنس،سندھ حکومت،سٹیک ہولڈرز،پاک ایران گیس لائن،بہتر متبادل ہے۔معاملے پر ذیلی کمیٹی بنا دی جائے۔ سینیٹر شیرین رحمان نے کہا کہ پاکستان دنیا کے دس موسمیاتی تبدیلی ممالک میں شامل ہے۔آبی حیات شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ ماہرین سے بریفنگ لینی چاہئے ۔ ایل این جی انتہائی اہم اور سنجیدہ معاملہ ہے سیر حاصل گفتگو ہونی چاہئے۔انتہائی اہم ذرائع کی اطلاع ہے کہ ٹرمینل بنے گا۔ عدم شفافیت کا بہت بڑا پہلو ہے۔بین الوزارتی سطح پر بحث ہونی چاہئے۔عدم شفافیت کو ختم کرنا ہو گا تاکہ مستقبل میں جواب نہ دینا پڑے ۔خدشات اور عوام پر پڑنے والے اثرات زیر بحث آنے چاہئیں۔سیکرٹری وزارت ابو عاکف نے بتایا کہ براہ راست معاملے کا وزارت سے تعلق نہیں اور کوئی مقتدر ادارہ بھی موجود نہیں لیکن قومی سلامتی کا معاملہ ہے آبی آلودگی بھی ہے اور کہا کہ 50کروڑ گیلن یومیہ خراب پانی سمندر میں چھوڑا جا رہا ہے ۔سمندر میں ایک کلومیٹر پانی کا لا ہے۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ سندھ کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے آبی حیات سمندری پانی کی آلودگی کے معالے پر 2 ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے ہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر یوسف بادینی نے کہا کہ کمیٹی ساحل سمندر اور ایل این جی ٹرمینل کے مجوزہ علاقے کا دورہ کریگی ۔ ملکی مفاد ترجیح ہونی چاہئے عوامی فوائد کیلئے شروع کردہ منصوبے شفاف ہونے چاہئیں۔سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ پانی کے اندر آلودگی گندا پانی بہت بڑا مسئلہ ہے قانون موجود ہے عمل درآمد نہیں ہو رہا مسائل کا حل نکالا جائے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یکجا ہو کر تمام مسائل کا حل پہلے قوم بننا ترجیح ہونی چاہئے۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ تھر کے حوالے سے کئی قسم کی باتیں پھیلائی گئیں تھر کا پانی بالکل صاف اور شفاف ہے ،سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ نے بہت بڑاکام کیا ہے پانی میں نے خود پیا جو بہترین تھا ۔میٹ آفس کے ڈائریکٹر جنرل نے آگاہ کیا کہ جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کیلئے 19ارب کے آلات خریداری کیلئے وزیر اعظم کو سمری بھجوائی ہے۔سینیٹر شیرین رحمان نے کہا کہ موسمیات دفتر اور ماحولیات عام اور نازک معاملات ہیں ۔سیلاب کی وجہ سے ہر سال سوال کھڑے ہوتے ہیں ۔سیلاب کی اطلاع اور موسمی تبدیلی کے دفاتر یکجا ہونے چاہئیں ۔پاکستان میں سیلاب گلیشیئر سسٹم کی وجہ سے آتا ہے لیکن وفاقی اورصوبوں کی منصوبہ بندی گومگوں کی حالت میں ہے زراعت لائیو سٹاک کا شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔ میٹ آفس کے ڈی جی نے آگاہ کیا کہ سیلاب کی پیشگی اطلاع اور موسمی تبدیلی بڑا چیلنج ہے1947کا انفرا سٹرکچر ورثے میں ملا۔کئی سال پرانے اوزار اور پرزے خراب ہوں تو درستگی مشکل ہے۔آج کے دور میں جدید ٹولز اور تعلیم یافتہ سٹاف چاہئے۔21نئے ریڈار خریدنے کی تجویز ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ موسمیات دفتر کو فعال کرنے اور مضبوط بنانے میں کس وزارت نے کیا کردار اد ا کرنا ہے طے ہونا چاہئے۔ این ڈی ایم حکام نے آگاہ کیا کہ 2103میں ایک ارب ڈالر کی لاگت سے تمام جزویات پر مشتمل منصوبہ بنایا گیا فلڈ پروٹیکشن کمیشن کا قیام تاخیر کا شکار ہے۔سینیٹر شیرین رحمان نے کہا کہ پیرس کانفرنس میں وزیر موجود نہ تھے ایک صفحے کا ڈاکیومنٹ پیش کیا گیا ۔چیئرمین کمیٹی نے ممبران سے میٹ آفس کو وزارت موسمیات میں شامل کرنے کی تجویز پر رائے لی ممبران کمیٹی نے حمایت کی۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ میٹ آفس کی وزیر اعظم کو بھجوائی گئی 19ارب کی سمری کی منظوری کیلئے کمیٹی او رچیئرمین اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں ،آٹھ سال سے فلڈ پروٹیکشن کمیشن میں تاخیر مذاق ہے۔سینیٹر شیرین رحمان نے لاہور کے رافع عالم اور مشاہد حسین نے ایس اڈی پی آئی کے شفقت کاکا خیل کی پانی اور سیلاب کے حوالے سے تجربے سے مشاور ت کی تجویز دی۔ سینیٹر ثمینہ عابد نے ارجنٹینا پارک کو پولی کلینک ہسپتال میں شامل کرنے کا معاملہ اٹھایا ۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ گرین ایریا موجود رہنے چاہئیں۔سیکرٹری وزارت نے کہا کہ پارک واپس نہ کیا جائے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہو گی ہسپتال کو کثیر المنزلہ بنا لیا جائے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کیبنٹ میں بھی معاملہ زیر غور ہے ۔تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھناپڑیگا ۔ارجنٹیا پارک کا معاملہ اگلے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا۔(ار)