اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے گزشتہ دورِ حکومت میں دیے جانے والے لیکویڈ نیچرل گیس ( این ایل جی) ٹرمینل آپریٹرز کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے ، 15 نومبر سے گنے کی کرشنگ کا آغاز اور ارتھ کوئیک ریکنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلٹیشن اتھارٹی (ایرا) کو ختم کرنے کے احکامات صادر کر دیے۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے گورنر سندھ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کا حکم بھی دیا گیا۔
اس کے ساتھ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کی مد میں صوبوں کو 3 فیصد حصہ قبائلی اضلاع کو دینے کی بھی ہدایت کی گئی۔
اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے این ایل جی کے 3 معاہدے کیے جس میں ایک قطر کے ساتھ گیس فراہمی کا معاہدہ اور مقامی کاروباری گروپس کے ساتھ ری گیسفکیشن ٹرمینل کے 2 معاہدے شامل ہیں۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ قومی احتساب بیورو(نیب) اور دیگر ادارے قطر کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی چھان بین کررہے ہیں جبکہ وزارت پیٹرولیم نے بھی اس حوالے سے اپنی تحقیقاتی اور آڈٹ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بغیر سوچھے سمجھے عجلت اور مایوسی میں کیے جانے والے این ایل جی ٹرمینل کے ان 2 معاہدوں کی بدولت پاکستانی معیشت سخت دباؤ کا شکار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ نے ان دونوں معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ معاہدے میں ’باہمی سمجھوتے کے تحت نظر ثانی ‘ کرنے کی شق موجود ہے، بصورت دیگر حکومت دیگر آپشنز کا استعمال کرے گی۔
وفاقی وزیر نے تنبیہاً کہا کہ ’اگر انہیں پاکستان میں رہتے ہوئے بزنس کرنا ہے تو انہیں معاہدوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی یا پھر حکومت دیگر اقدامات کرے گی۔
اس دوران جب ان سے ’دیگر اقدامات‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو وزیر پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ’ہم مذاکرات کی میز پر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اگر مذاکرات بے ثمر رہے تو دوسری صورت میں متعلقہ ادارے اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں جس کے بعد بدعنوانی ریفرنس بھی دائر ہوسکتے ہیں۔
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ این ایل جی کے 2 ٹرمینل کے ٹھیکے 2 کاروباری گروپس، اینگرو اور پاکستان گیس پورٹ کو انتہائی مہنگے داموں دیے گئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں چالاکی کا عنصر موجود ہے ۔
اس موقع پر انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس قسم کے اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہورہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنے مفاد کے لیے چھوڑا گیا ایک شوشہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ ٹھیکوں اور کاروباری معاملات میں شفافیت سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔