خبرنامہ پاکستان

ایک تھے ایدھی صاحب…عبدالقادر حسن

عید کی لاتعداد چھٹیوں کے بعد جن کے ختم ہو جانے کے بعد ان کو شمار کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی اب پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں مگر کیوں ہوں اس بات کا جواب جب کبھی ملے گا پیش کر دوں گا کیونکہ تب تک کوئی زیادہ بہتر لکھنے اور بات کرنے والا سامنے آ چکا ہو گا۔ سفید کاغذ اس کی پذیرائی کر رہے ہوں گے اور ہمارے جیسے لوگ اس نئے دوست کو داد دے رہے ہوں گے۔

زندگی اسی طرح چلتی ہے ایک عید سے دوسری عید اور دوسری عید سے ایک نئی عید۔ ’عید‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لوٹ کر آنے کے ہیں۔ اس چلیے ہم ایسے لوٹ کر آنے والے ہر دن کو ’عید‘ کہتے ہیں اور عید کے معنوں میں رونق میلہ بھی شامل ہے اس چلیے ہم یہ دن خوشی اور موج منانے کا دن بھی سمجھتے ہیں اور خوب خوشی مناتے ہیں۔

زندگی بذات خود یہی چاہتی ہے کہ وہ موج میلے میں ہی گزر جائے یا پھر ایدھی کی طرح۔ زندگی کا ایک یادگار نمونہ۔ ایدھی صاحب خود بھی ایک مشکل زندگی بسر کر گئے اور یک گونہ بے لطف بھی لیکن یہ مشکل زندگی ان کے چلیے آسان تھی کہ انھوں نے خود ہی اختیار کی تھی اور زندگی کے وہ لطف ایک راحت بنا چلیے جو ان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایک ایسی زندگی جو کبھی مر نہیں سکتی۔

ایدھی نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی کیا وہ ان کے خیال میں ایک بابرکت مصروفیت تھی اور جس کی برکات سے انھوں نے جی بھر کر لطف اٹھایا اور زندگی روشن کی نہ صرف اپنی زندگی بلکہ لاتعداد دوسرے انسانوں کو بھی زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت ’ایدھی‘ بنا دیا اور ان کی زندگیاں بھی بامقصد بنا دیں۔ وہ اپنی زندگی کے جو انداز اختیار کر گئے یہ انھوں نے آگے پھیلانے میں بھی پوری کوشش کی کیونکہ انھوں نے اپنی یہ زندگی خود اپنی مرضی کے ساتھ اختیار کی تھی۔ یہ ایک مشکل زندگی تھی۔

صرف دوسرے انسانوں کے کام آنے والی زندگی جس میں کوئی ذاتی آسانی نہیں تھی مگر ایدھی صاحب اپنی اس زندگی پر بہت خوش تھے اور اس میں ایک قدرتی سعادت سمجھتے تھے۔ ایک بار انھوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں جو ان کی زندگی پر تعجب کی صورت میں پیدا ہوا تھا کہا کہ قادر صاحب آپ یہ صحافت کے کروفر چھوڑ کر ان فقیروں کی زندگی کی طرف بھی آئیں جو آپ کے تمام مسائل حل کر دے گی یہاں تک کہ آپ لباس کے انتخاب میں بھی بے نیاز ہو جائیں گے۔

جب آپ کی زندگی ایک بے نیاز اور بے غرض زندگی ہو گی تو اس کی برتری کا مزا صرف آپ کو ہی ملے گا۔ آپ ایک منٹ کے چلیے سوچئے کہ آپ کی ضرورت میں ایک اور انسان بھی شریک ہے اور شاید یہ ضرورت اس کی زندگی کی ایک بہت ہی بڑی ضرورت ہو۔ آپ کی ضرورت سے بڑی تو پھر سوچئے کہ اس انسان کو خوش کر کے اس کی ضرورت کو پورا کر کے آپ کو کتنا لطف آئے گا بشرطیکہ آپ خودغرضی کے کچھ حصے سے باز آ جائیں اور اسے دوسرے کے نام کر دیں۔

اگر آپ مسلمان ہیں اور ماشاء اللہ ہیں تو آپ اپنے ہادی اور پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا مطالعہ کریں جو دوسروں کی خدمت سے بھری ہوئی ہے۔ جس شخص کو اپنی ایک ہی بیٹی کی پیشانی پر داغ دکھائی نہ دی جو پانی کی مشک اٹھانے سے پڑ گیا ہو اور وہ یہ برداشت کر لے تو پھر اس سے بڑھ کر بات کیا ہو سکتی ہے۔ ہمارا مذہب تو ہے ہی دوسروں کی خدمت کرنے کے چلیے۔

ایک بھائی چارہ جو پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہو اور جس کی وجہ سے ہر گھر دوسرے گھر کا غمخوار ہو۔ کسی مسلمان کی دوسرے مسلمان سے ناراضگی میں ایک دو دن سے زیادہ کی لاتعلقی ایک ناجائز عمل ہو اس معاشرے میں باہمی خدمت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے لیکن ہم باہمی عناد اور دشمنی کو عزت اور برتری کا ذریعہ سمجھتے ہیں اگرچہ بالآخر اس میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور اس کا انجام ایک پریشانی اور پشیمانی میں ہی ظاہر ہوتا ہے مگر ایسے انسان بہت کم ہوتے ہیں جو عبرت پکڑتے ہیں اور اپنی عزت کسی دشمنی میں نہیں محبت اور اخوت میں ہی سمجھتے ہیں اور پیار کی یہ زندگی ایک آسان زندگی ہے۔

ہمارے سامنے اس کی ایک مثال ہمارے معاشرے میں مرحوم و مغفور عبدالستار ایدھی تھے۔ ان کی زندگی ہمارے چلیے ایک نجات کا راست ہونا چاہیے جو مرحوم نے انسانی خدمت کے چلیے اختیار کر رکھا تھا اور اس خدمت میں اپنی پوری زندگی لگا دی تھی۔ آج ان کی زندگی قوم کے چلیے ایک مثال ہے اور جو لوگ ان کے برخلاف زندگی بسر کر گئے وہ آج اور ہمیشہ کے چلیے قوم کی نفرت کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔