خبرنامہ پاکستان

ای سی سی کا پہلا اجلاس، بجلی کے نادہندگان کیلئے پری پیڈ میٹرز لگانے کی تجویز

اسلام آباد: نو تشکیل شدہ اقتصادی رابطہ کمیٹی(ای سی سی) اپنے پہلے اجلاس میں کوئی بڑا فیصلہ نہ کر سکی البتہ اس کی توجہ کھاد بنانے والی کمپنیوں کے معاملات اور توانائی کے شعبے میں خسارے کی بنیادی وجوہات پر مرکوز رہی۔

وزیر خزانہ اسد عمر کے سربراہی میں ای سی سی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی 2 ماہ سے زیراالتوا سمری کو مؤخر کردیا گیا۔

اجلاس میں شامل ایک سینیئرعہدیدارکاکہنا تھا کہ اجلاس میں وزیر خزانہ نے ہر شخص کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیا اور دیے گئے مشوروں کو نہ صرف سراہا بلکہ آئندہ اجلاس میں انہیں تجاویز کی شکل دے کر تحریری شکل میں پیش کرنے کی ہدایت کی تا کہ اس پر فیصلے لیے جاسکیں۔

اجلاس میں یہ بات زیر غور آئی کہ گزشتہ برس کھاد بنانے والی کمپنیوں کومقامی پیداوارکے لیے گیس میں سبسڈی دیے جانے پر غیر متوقع فائدہ حاصل ہوا اور زائد پیداوار کے سبب کھاد برآمد بھی کی گئی، ورنہ اس وقت کھاد درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

اس حوالے سے ایک سمری پیش کی گئی جس میں آئندہ فصلوں کے سیزن کے لیے 6 لاکھ ٹن یوریا درآمد کرنے کی درخواست کی گئی۔

اجلاس میں اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ سبسڈی اور برآمدات کے سبب کھاد کی صنعت کو 10 ارب روپے کا منافع ہوا جس کے ثمرات ایک عام کسان تک بھی پہنچنے چاہیئے۔

اجلاس میں کل مقامی پیداوار کا تعین کرنے کے لیے کھاد کی صنعت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے وزیرا عظم کے مشیر صنعت و پیداوار عبدالرزاق داؤد کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا جو اپنی تجاویز آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔

ایک دوسری سمری میں وزارت توانائی کی جانب سے توانائی کے شعبے کے لیے ایک سو 70 ارب روپے کے بیل آؤٹ پیکج کی درخواست کی گئی جس کا گردشی خسارہ ایک کھرب ایک سو 78 ارب تک جاپہنچا ہے۔

اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ نادہندگان کے لیے قبل از وقت ادائیگی کے میٹر لگائے جائیں اور جو علاقے سب سے زیادہ خسارے میں وہاں بھی اس پر عملدرآمد کیا جائے۔

اس کے ساتھ اجلاس میں 5 سے 6 اہم ترین شعبہ جات میں واجبات کی نشاندہی کی گئی اور اس کی وجوہات جاننے اور اس پر تجاویز مرتب کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی جو آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔

جس کے بعداقتصادی رابطہ کونسل اپنی تجاویز منظوری اور حتمی فیصلوں کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کرے گی۔

اجلاس میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عوام کو تمام تر حقائق سے آگاہ کیا جائے گا تا کہ شفاف طریقے سے فیصلے لیے جاسکیں اور ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔