اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان عمران خان کے قوم سے خطاب پر ردِ عمل کا اظہا ر کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بتایا جائے سعودی عرب نے کن شرائط کی بنیاد پر بیل آؤٹ پیکج دینے کا اعلان کیا ہے۔
حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں نے وزیراعظم کی اپوزیشن کے بارے میں کی گئی گفتگو کو دھمکی قرار دے کر اس پر برہمی کا اظہار کیا ، ان کا کہنا تھا کہ حکومت سعودی عرب کی جانب سے ملنے والے بیل آؤٹ پیکج پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔
اس حوالے سےگفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وزیراعظم کی جانب سے اس بارے میں کوئی معلومات نہ دینے پر تنقید کی جس کی بنا پر سعودی عرب یمن تنازع میں پاکستان کو ثالثی کا کردار دینے کے لیے راضی ہوا، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے لیکن عمران خان نے کوئی تفصیلات نہیں دیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ بیل آؤٹ پیکج کی اسٹرٹیجک اہمیت کیا ہے؟ سعودی قرض کے بدلے میں پاکستانی عوام کو کس طرح کے معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ ڈیلیور کرنے میں ناکامی پر پشیمانی کا اظہار کرنے کے بجائے عمران خان اب بھی لوگوں کو اچھی خبر کا انتظار کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرا عظم کو 5 سال تک عوام سے جھوٹے وعدے کرنے پر معافی مانگنی چاہیے اس کے ساتھ انہوں نے وزیر اعظم کی جانب سے اسے اعلان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب کوئی این آر او نہیں ہوگا۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو بتانا چاہیے کہ کس نے ان سے ڈیل کا مطالبہ کیا ، ان کا کہنا تھا کہ بے بنیاد الزامات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی قیادت سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہی ہے۔
دوسری جانب پی پی پی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں سینیٹر رضا ربانی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بیل آؤٹ پیکج کی شرائط اور گوادر میں آئل ریفائنری کی تعمیر کے سلسلے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔
تاسف کا ااظہا رکرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو جان بوجھ کر گودام بنا دیا گیا ہے جہاں غیر پارلیمانی زبان کا استعمال اور ایک دوسرے کی تضحیک کی جاتی ہے جبکہ حکومت پارلیمنٹ کو آگاہ کیے بغیر اہم ترین اور اسٹریٹجک معاملات کے فیصلے کررہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان اور اس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا نہ ہی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط کے حوالے سے کچھ بتایا گیا ۔