خبرنامہ پاکستان

بنگلا دیش حکومت 1974 کے معاہدے کی پاسداری نہیں کررہی، وزیر خارجہ

بنگلا دیش حکومت 1974 کے معاہدے کی پاسداری نہیں کررہی، وزیر خارجہ

اسلام آباد:(ملت آن لائن) وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش حکومت 1974 کے معاہدے کی پاسداری نہیں کررہی جب کہ پاکستان میں سارک سربراہی کانفرنس کو سبوتاژ کرنے والوں میں بنگلا دیش بھی شامل تھا۔ قومی اسمبلی میں اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بنگلا دیش حکومت 1974 کے معاہدے کی پاسداری نہیں کررہی، بنگلا دیش نے 1971 کی جنگ کے لوگوں کو پھانسیاں دیں جب کہ پاکستان میں سارک سربراہی کانفرنس کو سبوتاژ کرنے والوں میں بنگلا دیش بھی شامل تھا، اس کے باوجود پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔
افغان مہاجرین کی واپسی کیلیے افغانستان میں امن چاہتے ہیں
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے، چین، ایران، بھارت، افغانستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں جب کہ پاکستان نے دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کی اور اپنے علاقوں سے کئی دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے 2 لاکھ فوجی افغان سرحد پر تعینات ہیں، پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ انفراسٹرکچر تعمیر کر رہے ہیں، افغانستان میں استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے جب کہ 50 ہزار سے زائد افغانیوں کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں تعلیم دی گئی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ 2017 میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ سے 54 پاکستانی جاں بحق اور 20 زخمی بھی ہوئے، بھارت نے کلبھوشن سے فیملی کی ملاقات کو بھی سیاسی رنگ دیا۔
امریکا سے دوستی گھاٹے کا سودا ہے، خواجہ آصف
وزیر خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب اور قطرکے درمیان کشیدگی کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، پاکستان تمام خلیجی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے، ہر ملک کے ساتھ تعلقات کی اپنی نوعیت ہے تاہم ہم عرب ممالک کے سفارتی بحران کے حل کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا خلیجی ممالک سے تجارتی حجم 20 ارب ڈالر سالانہ ہے، خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانی 13 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجواتے ہیں، عرب ممالک میں 55 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان میں جہاد کیا، اس جہاد کے ثمرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں، 1990 کی دہائی میں طالبان کا معاملہ عروج پر رہا جب کہ نائن الیون کے بعد ہم امریکا کے سہولت کار بنے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم ان فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں، ہم دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بجائے امریکا کے سہولت کار بنے رہے، خطے میں ہمارا کردار ہمارے مفادات سے ہم آہنگ نہیں رہا، اب ہم اپنے کردار کو اپنے مفادات سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم مشرقی اور مغربی سرحد پر امن چاہتے ہیں، ہم بھارت کو افغانستان کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت دینا چاہتے ہیں تاہم افغانستان بضد ہے کہ اسے واہگہ بارڈر سے تجارت کی اجازت دی جائے، پاکستان افغانستان کو واہگہ سے تجارتی راہداری دینے سے منکر ہے، اس وقت پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تجارت کم ہو رہی ہے۔