اسلام آباد:(ملت آن لائن) سپریم کورٹ نے ملکی عدالتی تاریخ کے انوکھے کیس کی سماعت کی جس میں شہری تطہیر فاطمہ اپنے نام کے ساتھ والد کے نام کی جگہ بنت پاکستان لگانے کی خواہش مند ہیں۔
تطہیر فاطمہ بنت پاکستان کیس کی سماعت کے موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ ہمیں اب ریاست کا موقف سننا ہے۔
سماعت کے آغاز پر عدالتی معاون مخدوم علی خان نے ولدیت تبدیلی کی سفارشات سپریم کورٹ میں جمع کرائیں اور کہا کہ والدین کا نام معلوم نہ ہونے کی صورت میں نادرا فرضی نام کا اندراج کرتا ہے اور یہ احمقانہ پالیسی ہے۔
عدالتی معاون نے بتایا کہ ریاست درست نام کا اندراج نہیں کرنا چاہتی تو اسے وجوہات بیان کرنی چاہئیں، کیا شناختی کارڈ پر والد اور والدہ کا نام ضروری ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ کئی ممالک میں والدین کا نام لکھا ہی نہیں جاتا، ریاست اپنی معلومات کے لیے والدین کے نام کا اندراج کرسکتی ہے لیکن اس کا شناختی کارڈ پر لکھنا ضروری نہیں، ان شرائط و ضوابط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ‘کیا اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے’ جس پر عدالتی معاون کا کہنا تھا سرکاری دستاویز کے لیے والد کا نام دینا ضروری نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ریاست اپنے اندراج کے لیے والدین کا نام تو لے سکتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا دستاویزات پر لکھنا بھی ضروری ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تطہیر کے معاملے میں باپ نے ضرورت کے وقت اس کو شناختی دستاویزات نہیں دیں، کیا یہ والد کا نام حذف کرا سکتی ہے جس پر عدالتی معاون نے کہا شہری پر لازم ہے کہ درست معلومات دے، دستاویزات پر نام کا اندراج ضروری نہیں۔
اس موقع پر تطہیر فاطمہ کی والدہ نے کہا کہ شرعی طور پر والد کا نام لکھنا لازم نہیں، شادی کے بعد والد کی جگہ شوہر کا نام آجاتا ہے، میں چاہتی ہوں کہ والد یا والدہ کسی کا بھی نام لکھا جا سکے۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں اب ریاست کا موقف سننا ہے جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔