خبرنامہ پاکستان

تنہائی کی کھچڑی ۔۔۔۔۔اسداللہ غالب۔

آج بہت مختصر بات کروں گا،ا سلئے کہ دل ٹوٹ گیا ہے، ارادہ تو یہ ہے کہ قلم بھی توڑ ڈالوں، کیا لکھوں ، بہتر ہے کہ نہ لکھوں کی۔کیایہ لکھوں کہ جنرل عاصم باجوہ درست کہتے ہیں یایہ لکھوں کہ سرتاج عزیز کا موقف صحیح ہے، یہ دونوں باتیں لکھنے سے بہتر ہے کہ اپنے منہ پہ تھپڑ ماروں۔اور دیوانہ وار دیواروں سے سر ٹکراؤں۔
جنرل عاصم باجوہ بھی ایک ذمے دار منصب پر فائز ہیں ا ور سرتاج عزیز پر کیا تبصرہ کروں، وہ جہاں دیدہ ، گرم و سرد چشیدہ ، مہان سیاستدان اور اہل علم و فضل میں سر بلند ۔مگر باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ ہم تنہا رہ گئے اور سرتاج صاحب فرماتے ہیں کہ دنیا ہمارے ساتھ ہے،، وزیر اعظم نے سترہ سربراہوں کو مراسلے بھیجے کہ بھارت کو ایٹمی کلب کی رکنیت نہ دیں اور دنیا نے ان کے خط کی لاج رکھی۔یہ تو تنہائی نہیں۔
تو پھر جنرل باجوہ کو تنہائی کا احساس کیوں اور کیسے ہوا، اگر باالفرض پاکستان تنہا بھی رہ گیا ہے یا دنیا نے ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیاہے تو آئی ایس پی آر کے بجائے یہ بات کہنے کا حق وزارت خارجہ کا ہے ا ور مشیر خارجہ ا س موضوع پر بولے بھی ہیں تو جنرل باجوہ کے موقف کے باکل برعکس ۔
میں نہیں چاہتا کہ ان دونوں کے درمیان یہ فیصلہ کیا جائے کہ کس کا موقف درست ہے اور کون غلط فہمی میں مبتلاہے، میں تو غلطی پر ہونے کی بات بھی نہیں کرتا، غلطی اور چیز ہے ا ور غلط فہمی اور چیز۔ غلط فہمی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی سے بہت زیادہ امیدیں باندھ لے اوراس کیفیت پر شاعر کہتا ہے کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
میں ا س بات کویہیں چھوڑتا ہوں کہ اس سے آگے میرے پر جلتے ہیں۔
مگر اگلی بات اس سے بھی زیادہ خطر ناک ہے ۔جنرل باجوہ نے کہا کہ فوج جمہوری نظام کی حمائت کر رہی ہے اور سول حکومت کی ممدو معاون ہے۔ سرتاج عزیز نے بھی کہا ہے کہ ہم فوج سے مشورہ کر کے خارجہ پالیسی بناتے ہیں۔لوگ پہلے ہی کہتے تھے کہ خارجہ پالیسی جی ایچ کیو سےآتی ہے، بھلے جہاں بھی خارجہ پالیسی بنتی ہے، بنتی رہے مگر یہ پالیسی بنانے والے اس کے نتائج وعواقب کی ذمے داری بھی تو قبول کریں۔اب جنرل باجوہ کے جواب آں غزل کا انتظار ہے ، اگر وہ مان گئے کہ خارجہ پالیسی ان کی طرف سے آتی ہے تو پھر پاکستان کی تنہائی کاشکوہ کس سے، اور کیوں۔
ابھی تو وزیر داخلہ نے کہہ دیا ہے کہ کراچی میں پولیس کی بھرتی فوج کی مشاورت سے کریں گے، کراچی میں فوج اور رینجرز پہلے ہی سے موجود ہیں مگر وہاں ٹارگٹ کلنگ بھی شروع ہو گئی اور اغوا کی واردات بھی ہو گئی، میں اسے ہائی پروفائل وارادت نہیں کہتا ، جوان بیٹا کسی غریب کا بھی اغوا ہو تو اس خاندان کی ابتلا بھی وہی ہے جو حالیہ واردات میں مغوی کے خاندان کی ہے۔ان وارداتوں کے بعد آرمی چیف کو فیلڈ میں خود نکلنا پڑا، انہوں نے کراچی کی دگر گوں صورت حال کو قریب سے دیکھا،،صلاح مشورہ کیا، اپنے آپریشن کا بھی جائزہ لیا۔
مگربعض معاملات ایسے ہیں جن میں فوج کو نہیں گھسیٹا جا سکتا، جیسے الیکشن کمیشن کے ممبر پورے نہیں ہیں ،ا سلئے اپوزیشن جتنی مرضی پیٹیشنیں دائر کرتی رہے، ان کی سماعت کی نوبت ہی نہیں آئے گی، ان کی سماعت کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کو پہلے مکمل کیا جائے، مگر کیوں کیا جائے، جب کام اس کے بغیر چل سکتاہے ا ور اچھا چل سکتا ہے اور پانامہ کا قصہ دبایا جاسکتا ہے تو اسے کیوں مکمل کیا جائے، اب اس الیکشن کمیشن کو مکمل کرنے کے لئے تو جی ایچ کیو سے پوچھنا ضروری نہیں، نہ جی ایچ کیو یہ کہنے کا مجاز ہے کہ اسے مکمل کیا جائے۔
پاکستان میں جو کھچڑی پکی ہوئی ہے بلکہ پاکستان کی حالت چوں چوں کے مربہ جیسی ہے،ا س پر صحیح تبصرہ آج ہی بھارتی وزیر اعظم مودی نے کیا ہے، وہ ہمار امضحکہ ا ڑانے کا موقع کیوں ضائع جانے دے گا، کہتاہے کہ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ پاکستان میں کس سے بات کی جائے،ا س بے یقینی کے علاج کے لئے سرحد پر متعین ہر بھارتی فوجی کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ ترکی بہ ترکی جواب دے۔لیجئے جی! دشمن لڑنے مرنے کے لئے تیار ہے اورادھر ہم باہم دست وگریباں ہیں۔
مجھے اکہتر میں بہت ڈر لگتا تھا،ا سوقت بھی ہم تنہارہ گئے تھے، دنیا نے ہی نہیں، ہم نے ایکدوسرے کو بھی تنہا چھوڑ دیا تھا، آپا دھاپی کا منظر تھا اور جیسے ڈر لگتا تھا، وہ ان ہونی ہو کر رہی، ملک ٹوٹ گیا، اب بھی دشمن کے مکروہ عزائم واضح ہیں۔
میں جنرل باجوہ کا مداح ہوں،ان کے ممدوح جرنیل کا بھی مداح، اب کس منہ سے ان پر تنقید کروں۔ فوج کا تو دل و جان سے مداح، ضرب عضب ا ور اے وطن کے سجیلے جوانو، میری ہی کتابیں ہیں جن میں فوج کے غازیوں اور شہیدوں کو سچے دل سے خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔
اور دوسری طرف سرتاج عزیز ، مجھے بے حد عزیز، جان سے زیادہ عزیز،کیسے کہوں کہ انہیں بھرے مجمع میں تبصرے سے گریز کرنا چاہیئے تھا۔ یہ چھوٹا منہ اور بڑی بات والی مثال ہو گی مگر میں کہوں گا کہ دونوں فریق آپس میں مل بیٹھ کر ایک موقف پر متفق ہو جائیں اور وہی زبان پر لائیں۔کھچڑی پکانے سے گریز کریں اور ملک کوچوں چوں کا مربہ نہ بنائیں، بے حد شکریہ!!