اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی نے اپنی دوسری پیشرفت رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے عدالت میں انکشاف کیا کہ جعلی اکاؤنٹس سے شروع ہونے والا سلسلہ انتہائی پیچیدہ منی لانڈرنگ کی شکل اختیار کر چکا جب کہ سندھ حکومت تحقیقات میں تعاون نہیں کررہی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں مبینہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت ہوئی جس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی دوسری پیشرفت رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
دوران سماعت جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت میں انکشاف کیا کہ جعلی اکاؤنٹس سے شروع معاملہ انتہائی پیچیدہ منی لانڈرنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے، معاملہ ایک کھرب روپے سے زائد کے حجم تک پہنچ چکا، پیچیدہ طریقوں سے عام افراد اور مرحومین کے اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کی گئیں، فالودہ فروش، رکشہ ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے بھیجےگئے۔
جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ بعض افراد کی موت کے 2 سال بعد ان کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈالے گئے، 47 ارب روپے عام افراد جب کہ 54 ارب سے زائد رقوم کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں ڈالی گئیں اور سندھ حکومت تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہی، متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔
جے آئی ٹی سربراہ کے بیان پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی ہم سے 2008 سے حکومت کا کیا ہر معاہدہ مانگ رہی ہے، جے آئی ٹی کے دیئے 46 ناموں میں سے صرف 6 معاہدے ریکارڈ میں دستیاب ہوسکے ہیں، یہ کسی کمرے کو رنگ کرانے کے معاہدے کی بھی کاپی مانگ رہے ہیں، سارے سرکاری کنٹریکٹس کا ریکارڈ ایک جگہ پر موجود نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل کے مؤقف پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس ہفتے 26 تاریخ کو کراچی آؤں گا، چیف سیکریٹری سمیت تعاون نہ کرنے والے تمام سیکریٹریز متعلقہ ریکارڈ سمیت حاضر ہوں، ریکارڈ نہ ملاتو دیکھیں گےچیف سیکریٹری اور دیگر افسران کے خلاف کیا کارروائی بنتی ہے۔
دوران سماعت انور مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انور مجیدکو دل کا عارضہ ہے، جیل ڈاکٹر نے انہیں اسپتال بھیجنے کی استدعا کی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے سندھ کے کسی ڈاکٹر کی رپورٹ پر اعتبار نہیں، جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ آپ کو پتہ ہے ایک صاحب کو پائلز ہے اور وہ اسپتال داخل ہو کر علاج کرا رہے ہیں، آپ کو معلوم ہے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ وہ دن کو سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں اور رات کو اس کے گھر میں ہوتے ہیں۔
اومنی گروپ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید کو 1999 میں امریکا میں دل کا اسٹنٹ ڈالا گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دل کی تکلیف ہے تو انہیں راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جائیں، اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ کیا وجہ ہےعدالت 77 سالہ آدمی کی میڈیکل رپورٹ پر یقین نہیں کرتی؟
عدالت نے انور مجید کو اسپتال منتقل کرنے کی استدعا مسترد کردی
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیوں یقین کریں وہ بندہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔
اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم کی وجہ سے ان کا علاج نہیں کیا جا رہا، انورمجید کو اسپتال منتقل کیا جائے۔
چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اندر ہو تو کمبل میں لیٹا رہتا ہے اور باہر ہو تو دفتر کے سارے کام کرتا ہے، انور مجید کی زندگی کو کوئی خطرہ ہے، وہ سندھ حکومت کا پیارا ہے، سندھ حکومت والے ان کا زیادہ خیال رکھیں گے ۔
جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ انور مجیدکو بہترین علاج مہیا کریں گے، راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے پاس سی ایم ایچ میں داخل کرا دیتے ہیں، کھربوں پتی لوگ ہیں، یہاں پچاس پچاس کنال کے سو گھر خرید سکتے ہیں، ابھی باہر جانے کی اجازت دے دوں تو بچے سے بڑے تک باہر چلے جائیں گے۔
اومنی گروپ کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ان کے مؤکل کراچی میں رہنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید کا اسلام آباد سے علاج ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے، انور مجید کو اڈیالہ منتقل کر دیتے ہیں۔
اومنی گروپ کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ انور مجید کی صحت سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ائیر ایمبولینس میں لے آتے ہیں اور ان کے علاج کیلئے ڈاکٹر بھی تعینات کر دیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے بیمار افراد کا میڈیکل سی ایم ایچ سے کرا کر رپورٹ کراچی میں پیش کرنے کا حکم دیا جب کہ عدالت نے آئی جی سندھ کلیم امام کو بھی 26 اکتوبر کو کراچی میں سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اومنی گروپ کے وکیل شاہد حامد نے عدالت سے استدعا کی کہ اومنی گروپ کے بینک اکاونٹ کھولے جائیں، ملازمین کو تنخواہیں دینی ہوتی ہیں، جو اکاؤنٹس منجمد ہوئے وہ جعلی نہیں تھے، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے سے معیشت اور ملک کا نقصان ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 91 ارب روپے کا پتہ چلنےتک ملیں نہیں کھولیں گے۔