خبرنامہ پاکستان

جماعت اسلامی کی متعدد قرار دادیں منظور

لاہور:(ملت+آئی این پی )اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کااجلاس امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق کی صدارت میں منصورہ میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں معاشی صورتحال کے بارے میں قرار داد منظور کی گئی جس میں ملک کی موجودہ ابتر معاشی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کر تے ہوئے کہا گیاہے کہ حکومت کی طرف سے معاشی استحکام کے دعوے ہیں اوراس کے ثبوت میں زر مبادلہ کے 23بلین ڈالر سے زیادہ کے ذخائر کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ملکی معیشت قرضوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی نظرآتی ہے۔ اس وقت کل قرض22.5کھرب روپے ہے۔ جس میں 73بلین ڈالر بیرونی قرضے ہیں۔ قرض کے مجموعی حجم کاملکی ریونیو سے تناسب 440فیصد ہے۔ کل قرض مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی ) کا 66فیصد ہے اور ملک کے قیمتی اثاثے یعنی موٹروے اور کراچی ائیرپورٹ وغیرہ کو گروی رکھا جا چکاہے۔ مسلم لیگ (ن ) کی تیسری حکومت نے 2013ء سے لے کر اب تک قرضوں کی بمعہ سودادائیگی پر 3.7کھرب روپے خرچ کیے ہیں۔ اس میں سے 3.4کھرب روپے اندرونی قرضوں پر اور 2.74بلین ڈالر بیرونی قرضوں پر ادائیگی ہوئی ہے۔ یہ ادائیگی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک سال میں کل ٹیکس وصولی سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت پاکستان کا ہر شہری 1,15000/=روپے کا مقروض ہے۔ اتنے قرضے اس وجہ سے بڑھے کہ ایک طرف درآمدات، برآمدات سے زیادہ ہیں اور دوسری طرف ملکی اخراجات کل ریونیو سے زیادہ ہیں۔ قرار داد میں مطالبہ کیا گیاہے کہ پورے ملکی معاشی نظام کو غیر سودی کیاجائے اور معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے ۔ قرضوں کی معیشت سے پاکستان کو آزاد کیاجائے۔ اس کے لیے بیرون ملک جمع شدہ اثاثہ جات اور بنکوں میں پڑی دولت ملک میں واپس لائی جائے اور ٹیکسوں کی وصولیابی کے نظام کو بہتر بنایاجائے۔ نیز معیشت کو اس طرح استوار کیاجائے کہ معیشت میں اگر بہتری ہوتو غریب آدمی تک اس کے اثرات پہنچ سکیں اور غربت میں کمی ہو۔ حکمرانوں کے پُر تعیش او ر غیر ضروری اخراجات میں کمی کی جائے ۔ اس ضمن میں ایوان صدر ، وزیراعظم ہاؤس ، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز اور ان کی تزین وآرائش پر خرچ ہونے والے قومی وسائل میں کم ازکم پچاس فیصد کمی لائی جائے۔بیرونی دوروں پروزیراعظم اپنے پیاروں کو ایک بڑے وفد کی صورت میں لے جا کرکروڑوں روپے سرکاری خزانے پر بوجھ کا باعث بنتے ہیں۔ اس رجحان کو ختم کیاجائے۔سرکاری گاڑیوں کا ناجائز استعمال ایک روایت بن چکاہے۔ جس کے نتیجے میں سالانہ اربوں روپے ضائع ہوتے ہیں ۔ اس کو کنٹرول کیاجائے۔ان اقدامات سے بجٹ خسارے کو بڑی حد تک کم کیاجاسکتاہے۔ کرپشن کا خاتمہ کیاجائے اورکرپشن کے خاتمہ کے لیے قائم تمام اداروں کی ازسرِ نوتنظیم سازی کرکے قوانین کو مزید بہتر بنایاجائے اور ان اداروں کے اہلکاروں کے کرپشن میں ملوث ہونے کی صورت میں انہیں عبرت ناک سزا ئیں دی جائیں۔فاٹا کے بارے منظور کی گئی قرار داد میں مطالبہ کیا گیاہے کہ حکومت پاکستانFCRکو ختم کر کے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کر دے ۔فاٹا میں مردم شماری کرائیں تاکہ صحیح اعداد و شمار سامنے آسکیں ۔2018ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے ۔صوبے میں انضمام کے بعد بلدیاتی انتخابات بھی کرائے جائیں ۔دفعہ247میں ترمیم کر کے فاٹا میں مکمل آئین نافذ کیا جائے اور ملا کنڈ ڈویژن کی طرز پر انتظامی اور عدالتی نظام متعارف کرایا جائے ۔ فیڈرل شریعت کورٹ میں اپیل کا حق دیاجائے اور عوام کو اسلامی شریعت اور جرگے کے ذریعے فیصلے کا حق دیاجائے ۔متاثرین کی دوبارہ بحالی ،شہداء اور زخمیوں کے لئے پیکج اور مسمار شدہ گھروں اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لئے کم از کم ایک ہزار ارب روپے کا پیکج دیاجائے ۔فاٹا میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کر کے کئی یونیورسٹی کیمپس ،خواتین یونیورسٹی ،انجینئرنگ یونیورسٹی ،ٹیکنیکل یونیورسٹی،میڈیکل کالجز،کیڈٹ کالجز اور تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیاجائے۔پولیس کی بجائے خاصہ دار اور لیویز فورس کو منظم فورس بنا کر مزید 30ہزار لیویز بھرتی کرائے جائیں ۔فاٹا کو ملا کنڈ ڈویژن کی طرز پر پاٹا بنا کر فری ٹیکس زون بنایا جائے ۔