کراچی: سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کو آڈٹ اکاؤنٹس جمع کرانے کی ہدایت کردی جب کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ معقول فیسوں کا تعین کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے کے خلاف والدین کی درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پرائیوٹ اسکول مالکان سے مکالمے کے دوران کہا کہ آپ اپنی مرضی کی فیس چارج کر رہے ہیں اور کہتے ہیں آپ کا رائٹ ٹو ٹریڈ ہے، آپ تعلیم بیچ رہے ہیں۔
پرائیوٹ اسکول کے وکیل شہزاد الہیٰ کے مسکرانے پر چیف جسٹس نے کہا یہ مسکرانے کی بات نہیں، آپ کہتے ہیں من مانی فیس لیں گے جسے منظور نہیں اپنے بچے کو لے جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی فیس نہ لیں کہ بچے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں، عدالت کو اساتذہ کا بہت احترام ہے۔
وکیل پرائیوٹ اسکولز نے دلائل دیتے ہوئے کہا عدالت کے سامنے یہ معاملہ ہے کہ فیس کتنی بڑھائی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا فیسوں کے بڑھانے کاضابطہ نہیں تو ہم خود فیسوں کا تعین کر دیتے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں تالیاں
چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں موجود والدین نے تالیاں بجانا شروع کردیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں سختی سے منع کیا اور کہا کہ یہ عدالت کی تعظیم کے خلاف ہے۔
والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اسکول والے کہتے ہیں منافع کم بچتا ہے لیکن برانچیں بڑھ رہی ہیں، یہ روتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں، ان کا فارنزک آڈٹ کرالیں جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ معاملہ ہے تو اسکولوں کا آڈٹ کرا لیتے ہیں کہ منافع میں ہیں یا خسارے میں۔
چیف جسٹس نے کہا ‘اسکولوں کا آڈٹ اور مالکان کے ٹیکس ریٹرن بھی دیکھیں گے’ اس موقع پر نجی اسکول کے وکیل نے کہا کہ ہم نے آڈٹ اکاؤنٹس پیش کردیے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ہم نے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے تعلیمی پالیسی دی ہے۔
والدین بچوں کو اچھی تعلیم دینا چاہتے ہیں لیکن تعلیم صنعت بن چکی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے نجی اسکول مالکان کو کہا آپ تعلیم کے قومی جذبے سے ہٹ کر کمائی کے چکر میں پڑ گئے ہیں اور سرکاری اور نجی اسکولوں میں بہت گیپ پیدا کر دیا ہے’.
چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹاف کو یہ لوگ تنخواہیں دیتے ہیں، نجی اسکول بند ہوں گے اور نہ نیشنلائز، والدین بچوں کو اچھی تعلیم دینا چاہتے ہیں لیکن تعلیم صنعت بن چکی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ‘ایک بندہ ایک ڈیڑھ لاکھ تنخواہ لیتا ہے، جس کے 3 بچے ہیں، وہ کیسے 30 ،30 ہزار فیس دے گا، فیسوں کے لیے ضابطہ کار ہونا چاہیے’۔
عدالتی معاون لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ تین قسم کے تعلیمی نظام اس ملک میں ہیں اور تینوں تعلیمی نظاموں کے طالبعلم آپس میں نفرت کرتے ہیں۔
بڑے بڑے ممی ڈیڈی اسکولوں میں بچوں کو منشیات دی جا رہی ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے پاس روز رپورٹس آتی ہیں کہ بڑے اسکولوں میں کتنی منشیات استعمال ہو رہی ہے، بڑے بڑے ممی ڈیڈی اسکولوں میں بچوں کو منشیات دی جا رہی ہے اور اسکولوں کا چھوٹا عملہ ہی منشیات فراہم کرتا ہے، مہنگے اسکولوں میں یہ ہو رہا ہے، میں نام نہیں لینا چاہتا۔
چیف جسٹس نے کہا ‘نپولین نے میلان فتح کیا تو کہا تھا جسے معافی لینی ہو وہ کسی استاد کے گھر چلا جائے اور اشفاق احمد جرمنی کی عدالت گئے تو عدالت ان کے احترام میں کھڑی ہوگئی۔
چیف جسٹس نے ریماکس دیے ;میں چاہتا تھا سب کی ایک کتاب، ایک بستہ اور ایک یونیفارم ہو، چاہتا ہوں سب کی ایک کتاب اور ایک سلیبس ہو لیکن نہیں کر سکا’۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے ساتھ بیٹھ کر معقول فیس کا تعین کریں اور قانون سازی کے لیے بھی تجاویز دیں، اس کے بعد کمیٹی بنادیں گے اور تمام فریقین کے وکلاء کی کمیٹی مل کر اس مسئلے کا حل نکالے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
عدالت کی اسکولوں کے سینیئر وکلاءکو والدین بن کر سوچنے کی نصیحت
چیف جسٹس نے سینئر وکلا کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ بڑے وکلاء خود کو والدین کے ایشوز محسوس کر کے سوچیں، جو نوٹس لیتا ہوں بڑی بڑی فیسوں والے وکیل آ جاتے ہیں، جب آپ بڑی بڑی فیسیں وصول کر لو گے تب بتا دینا پھر مسئلہ حل کر لینا۔
چیف جسٹس نے کہا آپ سب کو پتا ہے اس کیس میں کیا معاملہ ہے، ایک سی ایس پی افسر بھی آج 3 بچوں کی فیس ادا نہیں کر سکتا۔