خبرنامہ پاکستان

حکومت سے الگ ویمن یونیورسٹیوں کے قیام کیلئے بجٹ مختص کر نے کا مطالبہ

اسلام آباد (ملت + آئی این پی) قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے حکومت سے آئندہ بجٹ میں ملک میں خواتین کیلئے الگ یونیورسٹیوں کے قیام کیلئے بجٹ مختص کر نے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومیں پل اور سڑکیں بنانے سے نہیں بنتی بلکہ عوام پر سرمایہ کاری سے بنتی ہیں،ماں پڑھی لکھی ہوگی تو پوری نسل پڑھی لکھی ہوگی،حکومت ملک میں بچوں سے مزدوری کروانے والے والدین کیخلاف سخت سزائیں مقرر کرے،جب تک ہم اپنی نئی نسل کو کو معیاری تعلیم نہیں دیں گے تب تک ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے،ایچ ای سی کے بجٹ میں و یمن یونیورسٹیوں کے قیام کیلئے الگ بجٹ مختص کیا جائے،کستان میں ہم نے تعلیم فرنچائزڈ کردی ہے اورتعلیمی اداروں کو کاروبار بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری ادارے تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ان خیا لات کا اظہار منگل کو قومی اسمبلی میں ارکان نے رکن شکیلہ لقمان کی ملک بھر میں ہر ضلع میں ویمن یونیورسٹی کے قیام کیلئے پیش کی گئی قرار داد پر بحث کے دوران کیا۔قرار داد پر بحث میں شیر اکبر خان ،عبدالقہار ودان، شازیہ مری ،عالیہ کامران، نعیمہ کشور ،غلام احمد بلور ، نواب یوسف تالپور،عبدالرشید گوڈیل،شیخ صلاح الدین ، عامر ڈوگرو دیگر نے بحث میں حصہ لیا۔قبل ازیں قرارداد پیش کرتے ہوئے رکن شکیلہ لقمان نے کہا کہ حال ہی میں پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے سروے آیا ہے جس میں ہمارا لٹریسی ریٹ 57فیصد بتایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 103 چھوٹی بڑی یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے خواتین کے لئے صرف 13یونیورسٹیاں ہیں۔ ملک کی آبادی تقریباً 20کروڑ پر مشتمل ہے جن میں سے پچاس فیصد خواتین کی آبادی ہے مگر بدقسمتی سے ملک میں نصف آبادی کے لئے صرف تیرہ یونیورسٹیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیہاتی علاقوں میں لوگ اپنی بیٹیوں کو دور دراز کے علاقوں میں پڑھنے کے لئے نہیں بھیجتے کچھ لوگ مخلوط تعلیم کو بھی پسند نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ اپنی بچیوں کو ایسی یونیورسٹیوں میں جہاں مخلوط تعلیم دی جاتی ہو داخل نہیں کراتے جبکہ ملک میں دیہی علاقوں میں غربت کی وجہ سے لوگ دور دراز کے علاقوں میں اپنی بچیوں کو تعلیم کے حصول کے لئے نہیں بھجوا سکتے اس لئے ملک کے ہر ڈسٹرکٹ میں ایک خواتین کے لئے یونیورسٹی قائم کی جائے۔ رکن شیر اکبر خان نے کہا کہ یہ انتہائی اہم قرارداد ہے ہمارا دین بھی ہمیں کہتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔ اس ایوان میں بونیر میں وویمن یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے متفقہ قرارداد منظور ہوچکی ہے حکومت اس قرارداد کو عملی جامہ پہنائے۔ رکن عبدالقہار ودان نے کہا کہ اس قرارداد کو نہ صرف منظور کیا جائے بلکہ اس پر عملی اقدامات بھی اٹھائے جائیں اور آئندہ ایچ ای سی کے بجٹ میں وویمن یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے بجٹ مختص کیا جائے۔رکن شازیہ مری نے کہا کہ تعلیم سب کے لیے لازم ہے،اگرصرف خواتین پڑھ لکھ جائیں،مرد رہ جائیں پھربھی مسائل ہونگے، دانش اسکول کا حال سب کے سامنے ہے، دنیا میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا رجحان بڑھ گیا ہے، ہمیں اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانا ہوگی ۔ رکن عاقب اﷲ خان نے کہا کہ ملک میں زیادہ تر علاقوں میں لوگ اپنی بچیوں کو ایسے اداروں میں داخل نہیں کراتے جہاں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے اس لئے خواتین کے لئے الگ یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔ حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ خواتین کے لئے یونیورسٹیاں لازمی قائم کی جائیں مگر قبائلی علاقوں میں تاحال لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے اسی طرح بلوچستان کے بہت سے ضلعوں میں یونیورسٹی نہیں۔ خواتین کے لئے یونیورسٹیوں کے قیام کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل تعلیم کے لئے یونیورسٹیاں بھی قائم کی جائیں۔ نواب یوسف تالپور نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا وجوہات ہیں کہ ملک میں لٹریسی ریٹ بڑھنے کے بجائے کم ہوگیا ہے۔ ملک میں تعلیم کے لئے مختص بجٹ بڑھانا ہوگا۔ 1996 میں جی ڈی پی کا 2.85فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا تھا مگر بدقسمتی سے وہ کم ہو کر 1.85 ہوگیا ہے۔ رکن عالیہ کامران نے کہا کہ حکومت آئندہ بجٹ میں تعلیم کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرے۔ گوادر اس وقت سونے کی چڑیا بنا ہوا ہے مگر وہاں ایک بھی یونیورسٹی قائم نہیں۔ حکومت آئندہ بجٹ میں گوادر میں یونیورسٹی قائم کرنے کیلئے بجٹ مختص کرے۔ رکن عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ پاکستان میں ہم نے تعلیم فرنچائزڈ کردی ہے، سری لنکا میں تعلیم کی شرح99 فیصد ہے سری لنکا میں قانون بنایا گیا ہے کہ اگر کوئی بچہ مزدوری کرتا ہوا پکڑا گیا تو اس کے والدین کو سزا دی جائے گی ملک میں تعلیم کے فروغ کے لئے ایسی سزائیں مقرر کی جائیں۔ کرنل (ر) طاہر اقبال نے کہا کہ حکومت آئندہ بجٹ میں چکوال میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے بجٹ مختص کرے۔ انجینئر عثمان ترکئی نے کہا کہ حکومت فاٹا اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں تعلیم پر توجہ دے اور وہاں یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے آئندہ بجٹ میں زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کئے جائیں۔ رکن رانا قاسم نے کہا کہ آج ایوان میں پاکستان کے سب سے بڑے مسئلے پر بحث ہورہی ہے جب تک ہم اپنی نئی نسل کو کوالٹی ایجوکیشن نہیں دیں گے تب تک ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ رکن غوث بخش مہر نے کہا کہ جب تک ماں پڑھی لکھی نہیں ہوگی تب تک نئی نسل تعلیم یافتہ نہیں ہوگی اس لئے ملک میں خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ملک میں پرائمری لیول تک تعلیم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ صاحبزادہ یعقوب نے کہا کہ تعلیم کا شعبہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے جس کے بغیر قومیں ترقی نہیں کرسکتیں۔ بدقسمتی سے پورے مالاکنڈ ڈویژن میں ایک بھی وویمن یونیورسٹی نہیں ہے۔ شیخ فیاض الدین نے کہا کہ ملک میں علم کے ساتھ ساتھ بہتر تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ حکومت بہتر تربیت کے لئے محکمہ قائم کردے اور بہتر تربیت کا آغاز بیشک ہم سے کیا جائے۔ ڈاکٹر جی جی جمال نے کہا کہ تعلیم اور صحت کا شعبہ جس ملک میں بہتر ہوگا وہ ملک ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے ہم گزشتہ چار سال سے فاٹا میں تعلیمی ادارے مانگ رہے ہیں مگر ہمیں جواب تک نہیں دیا جارہا بس یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام کیا جائے۔ ہمیں یہ بتایا جائے کہ تعلیمی اداروں کا انضمام سے کیا تعلق ہے۔ رکن عیسیٰ نوری نے کہا کہ اس وقت ملک میں قابل رحم خواتین بلوچستان کی ہیں پورے بلوچستان میں خواتین کے لئے صرف کوئٹہ میں ایک یونیورسٹی ہے۔ رکن نعیمہ کشور نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ملک میں تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے آج ایوان میں بحث ہورہی ہے۔ حکومت ایسی قراردادیں ایوان میں پیش کرنے سے قبل از خود تعلیمی اداروں کے قیام کے حوالے سے اقدامات کرے۔ شیخ صلاح الدین نے کہا کہ ملک میں ابھی تک ابتدائی تعلیم کے لئے سہولیات کا فقدان ہے اور ہم یہاں خواتین کے لئے علیحدہ یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے بحث کررہے ہیں۔ پہلے ملک میں بنیادی تعلیم کے لئے سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔ رکن عامر ڈوگر نے کہا کہ قومیں پل اور سڑکیں بنانے سے نہیں بنتی بلکہ عوام پر سرمایہ کاری سے بنتی ہیں۔ ہر سال ہم اپنی تقریریوں میں تو تعلیم کو بہتر بنانے کی باتیں کرتے ہیں مگر حقیقت میں کچھ نہیں کرتے۔ ملتان میں وویمن یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ گزشتہ بیس سال سے التواء کا شکار ہے دیہاتی علاقوں میں سکولوں کی حالت ابتر ہے۔ خواتین کے لئے علیحدہ یونیورسٹیاں بنانے سے قبل دیہاتی علاقوں میں سکولوں کی حالت بہتر کی جائے۔سردار منصب علی ڈوگر نے کہا کہ پاکپتن میں بابا فرید الدین کے نام سے یونیورسٹی قائم کی جائے۔ پی ٹی اے کے حامد الحق نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔ ایچ ای سی کی حالت بھی خراب ہے۔ تعلیمی اداروں کو کاروبار بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری ادارے تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہاکہ تعلیم ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مالاکنڈ میں خواتین کی یونیورسٹی نہیں ہے۔ سرمایہ کے بغیر حصول تعلیم ناممکن ہو گیا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کیا جا رہا۔ (ن غ/ رڈ)