خبرنامہ پاکستان

خاتون کیخلاف تشدد ثابت ہونے پر قصوروار کو ٹریکٹر لگایا جائیگا : رانا ثناء

لاہور:(اے پی پی)صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثناءاللہ خاں نے کہا ہے کہ تحفظ نسواں ایکٹ پر عملدرآمد میں پولیس کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا- خانگی معاملات ویمن پروٹیکشن افسر مصالحت کے ذریعے حل کرائے گی- خاتونکے خلاف تشدد ثابت ہونے پر قصور وار کو ٹریکر لگایا جائے گا- علما سے مشاورت جاری ہے -ایکٹ میں ترامیم کے لئے اسمبلی فورم استعمال کر سکتے ہیں- تحفظ نسواں ایکٹ پر عملدرآمد کے لئے ضلعی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے 90 شاہراہ قائداعظم میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا- اس موقع پر مشیر وزیراعلیٰ سلمان صوفی، خطیب بادشاہی مسجد علامہ عبدالخبیر آزاد، چیئرمین علماءکونسل مولانا طاہر محمود اشرفی، سیکرٹری جنرل اسلامی نظریہ کونسل مولانا زاہد محمود قاسمی، صدر علما کونسل پنجاب حافظ محمد امجد، مولانا راغب نعیمی اور علامہ زبیر احمد ظہیر بھی موجود تھے- رانا ثناءاللہ خاں نے کہا کہ تحفظ حقوق نسواں ایکٹ پر تمام مکاتب فکر کے علما سے مشاورت کا عمل جاری ہے- حکومت نے نسواں ایکٹ پر مشاورت کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے 11 سو علمائے کرام کو خطوط ارسال کئے ہیں- حکومت پنجاب قرآن و سنت کے منافی کسی قانون کی منظوری کا تصور بھی نہیں کر سکتی- ایکٹ کے حوالے سے علمائے کرام کے ساتھ چند اصلاح طلب پہلو¶ں پر غور جاری ہے- ایکٹ میں اصلاحات کے لئے اگر معاملہ اسمبلی فلور تک لے جانا پڑا تو لے کر جائیں گے- گزشتہ اجلاس میں علمائے کرام کی جانب سے اس ایکٹ میں چار طرح کی اصلاحات کرنے کے لئے کہا گیا تھا- لڑائی جھگڑے کی صورت میں خاوند کو گھر سے 48 گھنٹوں کے لئے باہر رکھنے کی بجائے اس بات کی ضمانت لی جائے گی کہ وہ خاتون پر تشدد نہیں کرے گا، ویمن پروٹیکشن افسر مصالحت سے معاملہ کو حل کرائے گی جبکہ بعدازاں دیگر اقدامات زیرغور آئیں گے- خانگی معاملات میں قرآن پاک کی سورة النساءکے تابع فیصلے کئے جائیں گے- انہوں نے کہا کہ جن جرائم کے ارتکاب پر قصور وار کو ٹریکر لگایا جائے گا ان کی فہرست مرتب کی جائے گی- یہ ٹریکر یقیناً خاتون کے خلاف خطرناک عزائم رکھنے والے افراد کو ہی لگے گا- یہ ٹریکر ایک ہی چھت تلے رہنے والے میاں بیوی میں سے کسی کو نہیں لگے گا۔ تحفظ نسواں ایکٹ پر رواں سال جون میں عملدرآمد شروع کیا جائے گا- اس سال کے آخر تک 10 اضلاع جبکہ اگلے سال تک دیگر اضلاع میں اس قانون کا اطلاق کیا جائے گا- حکومت قانون کو قابل عمل بنانے کے لئے ہر سطح پر لچک کا مظاہرہ کرے گی- اس موقع پر علمائے کرام نے کہا کہ مذکورہ ایکٹ غیر اسلامی نہیں خاتون پر تشدد حرام ہے- پنجاب حکومت کی جانب سے علمائے کرام کو خطوط لکھے جانا اچھی روایت ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق رانا ثنا نے کہا کہ تحفظ خواتین بل پر پنجاب حکومت اور علمائے کرام کے درمیان چند نکات پر اتفاق ہو گیا ہے۔ لڑکی کی طرف سے شکایت موصول ہوئی تو خاندان کے افراد صلح کی کوشش کریں گے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں صلح کی جائے گی۔ علمائے کرام کی رائے ہے کہ کڑا لگانے کی وضاحت ناکافی ہے۔ کڑا ان لوگوں کو لگایا جائے گا جو خواتین کا تعاقب کرتے ہیں۔ کسی فیملی ممبر کو کڑا نہیں لگایا جائے گا۔ جو تجاویز پیش کی گئیں اس سے متعلق کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ اسلامی نظریہ کونسل کی طرف سے بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ مصالحتی کمیٹی ضلعی سطح پر بنے گی۔ نفسیاتی تشدد کے بارے میں علمائے کرام نے وضاحت طلب کی ہے۔ علما کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین پر تشدد ایک بیماری ہے، اسکا مکمل علاج مل جل کر کیا جائے گا۔ جن افراد کو اعتراض ہے کہ اس میں مذہب کیخلاف چیزیں ہیں تحفظات دور کرنے کیلئے علماءسے مشاورت جاری ہے، تک دو اجلاس کر چکے ہیں جس میں انتہائی کامیابی ملی ہے۔ خواتین پر تشدد اسلام نے منع فرمایا ہے۔ مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ مرد کو گھر سے نکالنے اور کڑا پہنانے جیسے مسائل کا حل نکال لیا ہے، جلد قانون سازی سے بہتری کی طرف جائیں گے۔ تحفظ نسواں بل میں خلاف مذہب کوئی شق نہیں۔
تحفظ خواتین بل