خبرنامہ پاکستان

دنیا جیسا برتاؤ کرےگی ویسا ہی رد عمل سامنے آئےگا، چوہدری نثار

اسلام آباد:(اے پی پی) وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے سارک اجلاس سے ناراض ہوکر چلے جانا مسئلے کا حل نہیں اور ہم کسی کی منت نہیں کریں گے دنیا ہم سے جیسا برتاؤ کرے گی ویسا ہی رد عمل سامنے آئے گا۔ سارک وزرائے داخلہ اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ مجموعی طورپراجلاس کاماحول اچھا رہا اور بطورمیزبان پاکستان کا رویہ بہت اچھا تھا جب کہ سارک وزرا داخلہ کی اگلی کانفرنس 2017میں سری لنکا میں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ روایت ہے کہ سارک فورم میں سیاسی معاملات پربات نہیں ہوتی لیکن کل سے سیاسی بیانات آنےکا خدشہ تھا اور اجلاس میں سیاسی معاملات بھی سامنے آئے لیکن کانفرنس میں تمام ممالک نے اصل ایجنڈے پر توجہ مرکوز رکھی۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیرداخلہ نے نام نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا جب کہ نام لے کرکہا گیا کہ ممبئی، پٹھانکوٹ اورڈھاکا میں دہشت گردی ہوئی اسی لیے راج ناتھ سنگھ کوجواب دینا ضروری تھا اور بطور چیرمین پاکستان کی جانب سے بیان دینے کا فیصلہ کیا کیوں کہ پاکستان کے مفاد اور مؤقف کا اظہار ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس کی سائیڈ لائنز پرغیررسمی میٹنگز ہونی چاہئیں، میرے مشورے پرایک کےعلاوہ تمام ممالک نے حامی بھری تاہم ایک ملک کی جانب سے اعتراض آنے پر اپنا پرپوزل واپس لے لیا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ کوئی بھی ملک ہم سے جیسا برتاؤ رکھے گا ہم بھی ویسا ہی برتاؤ رکھیں گے، کوئی ملک دہشت گردی کی آڑ میں آزادی کی کوششوں کونہیں کچل سکتا اور نہ دہشت گردی کا الزام لگا کر نہتے کشمیریوں پر ظلم کیا جاسکتا ہے کیوں کہ کوئی قانون دہشت گردی کے نام پرشہریوں پر فائرنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ سارک میں ایسا کوئی ملک نہیں جودہشت گردی سے پاکستان سے زیادہ متاثرہوا ہو جب کہ لاہوراور کراچی میں دہشت گردی کی کئی وارداتیں ہوئیں اور دہشتگردی ہمارے یہاں ہوتی ہے تو ہمارے پاس بھی ثبوت ہوتے ہیں لیکن ہمیں اب الزامات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اجلاس سے ناراض ہوکر اٹھ کرچلے جانا مسئلے کا حل نہیں، مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے اور پاکستان نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے، ہم کسی کی منت نہیں کریں گے لیکن اپنا مؤقف ضروردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بھی ملک ہیں جہاں مذہب کے نام پردہشت گردی کرنے والے آزاد پھر رہے ہیں اور بھارت آزادی کی جنگ لڑنے والوں پردہشت گردی کا الزام لگاتا ہے جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دہشت گردی کی تعریف میں فرق ہے تو انٹیلی جنس شیئرنگ کیسے ہوگی۔