خبرنامہ پاکستان

دیگر ممالک نے آبی تنازعات کو کیسے حل کیا…ظفر محمود ، چیئر مین واپڈا

کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں مضامین کا یہ سلسلہ تین موضوعات پر محیط ہے۔ پہلا موضوع دنیا بھر میں مختلف ممالک کے درمیان تنازعات اور ایک ہی ملک کے مختلف صوبوں یا ریاستوں کے درمیان آبی مسائل اور اُنکے حل کی کوششوں پر مشتمل ہے، جس میں آبی ذخائر تعمیر کرنے کے معاہدے بھی شامل ہیں۔ دوسرا موضوع کالا باغ ڈیم کے بارے میں حقائق کے بیانیہ پر مشتمل ہے تاکہ اس منصوبے کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے جبکہ تیسرے اور آخری حصے میں اس منصوبے پر ایک مکمل معاہدے کے خدو خال وضع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگلے چند مضامین میںاُن بین الاقوامی تجربات کا تذکرہ کیا جائے گا، جن کی مدد سے اسی نوعیت کے پیچیدہ مسائل کو حل کیاجاچکا ہے جو پہلے عدم اعتماد کا شکار تھے۔سندھ دنیا کا وہ واحد دریائی سلسلہ نہیں ہے، جس میں ایک سے زیادہ ممالک یا ایک ہی ملک کے مختلف علاقے شراکت دار ہیں۔ ہمیں اس بارے میں جاننے کی ضرورت ہے کہ دوسرے لوگوں نے کس طرح کامیابی کے ساتھ پانی سے متعلق اپنے اختلافات دور کئے ہیں۔ اس طرح کی معلومات سے ہمارے ذہن کشادہ ہوتے ہیں کیونکہ پانی کے بارے میں کسی بھی جانبدار مباحثہ میں ہم معاملات کو اپنے نظریات کی مخصوص عینک سے دیکھتے ہیں۔ سندھ طاس کے حوالے سے ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ بھی اس بات سے مبرّا نہیں۔ بہت سے ممالک کو اس سے بھی پیچیدہ مسائل کا سامنا تھا ، لیکن انہوں نے ”کچھ لو اور کچھ دو “ کے جذبہ کے تحت اپنی قوتِ فیصلہ کے بل بوتے پر اتفاقِ رائے کو ممکن بنایا۔ مضامین کے اس سلسلے میں مختلف ممالک یا ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان، پانی کے گھمبیر مسائل کو حل کرنے کیلئے دنیا کے تقریباً تمام براعظموں سے ایسی کامیاب کوششوں کو مثال کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اِس سے اُن لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوگا جو پاکستان میں پانی کے مسائل کو حل کرنے میں خلوصِ دل کےساتھ دلچسپی رکھتے ہیں ۔

پاکستان میں پانی کے بہت سے مسائل ہنوز حل طلب ہیں ، مثلاً خشک سالی کے دوران کس طرح صوبوں کیلئے متعین پانی کی مقدار میں کمی لائی جائے ؟ ہمارے آبی ذخائر میں پانی بھرنے اور بعد ازاں اُسے خارج کرنے کیلئے کوئی متفقہ طریقہ کار (SOP) موجود نہیں۔ ہمیں ایک ایسامو¿ثر پروگرام وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے ، جسکے تحت پانی کے باقاعدہ (Controlled) اخراج کے ذریعے دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو محفوظ رکھا جاسکے اور سمندر کے کھارے پانی کو اِس ڈیلٹا کے اندر آنے سے روکا جاسکے۔ ہمارے یہاں نہروں کو پختہ کرنے اور آبپاشی کے موجودہ سٹرکچر کو تبدیل کرنے کیلئے فنڈز فراہم کرنے کا بھی کوئی معاہدہ موجود نہیں ۔اگرچہ زیر نظر مضامین کے اِس سلسلے کا عنوان کالاباغ ڈیم سے متعلق ہے ، لیکن یہ مضامین تحریر کرنے کا مقصد ایک ایسے لائحہ عمل (روڈ میپ)کی تلاش ہے ،جسے بروئے کار لا کر صوبوں کے درمیان پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے جامع اتفاق رائے کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔ بیشتر لوگ میری اِس بات سے اتفاق کرینگے کہ اگر ہمیں اپنے آبی مسائل حل کرنے کےلئے کسی جامع سمجھوتے تک پہنچنا ہے تو یہ بات بنیادی حیثیت کی حامل ہے کہ کالاباغ ڈیم سے وابستہ تنازعہ کو حل کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ میں مضامین کے اس سلسلے کے ذریعے اخبارات کے توسط سے لوگوں کے سامنے حقائق پیش کرنے کو ایک مناسب قدم سمجھتا ہوں۔ اتفاقِ رائے کے حصول کی جستجو میں میری عاجزانہ کاوش ذاتی حیثیت میں ہے اور اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے پوری امید ہے اور میں اس بات کیلئے دعا گو ہوں کہ میری اس کاوش کواُسی جذبے کے ساتھ پرکھا جائیگا جس خلوصِ دل کے ساتھ مضامین کا یہ سلسلہ تحریر کیا گیا ہے۔
مجھے کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں جس بات نے اتفاق رائے کی کھوج پر مائل کیا، وہ سٹاک ہوم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ میں ٹرانس باﺅنڈری واٹر مینجمنٹ کی ڈائریکٹرMs.Sjomander Magnusson کی تحقیق ہے،جس میں انہوں نے مختلف ممالک یا ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان تمام آبی تنازعات کا احاطہ کیا ہے۔ اپنی تحقیق میںوہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ پانی کے معاملات پر جنگیں ہونے کے جس خطرے کا گذشتہ چند عشروں کے دوران پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے ، وہ موجودہ صورتِحال کی عکاسی نہیں کرتا۔جن علاقوںیا ممالک کے درمیان آبی تنازعات موجود تھے انہوں نے پانی کی تقسیم کے بارے میں ایک دوسرے کیساتھ مذاکرات کئے ہیں ۔ اپنی تحقیق میں انہوں نے پانی پر جنگوں کے نظریہ میں تبدیلی کی جو بنیادی وجہ بتائی ہے وہ لوگوں میں پیدا ہونیوالا یہ ادراک ہے کہ پانی انسانی زندگی کیلئے لازم ہے اور اسے بانٹ کر استعمال کرنا چاہیے¿۔ انسانی تہذیب کے ارتقاءسے ہم مارک ٹوئین کے زمانے کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں ،جب انہوں نے امریکہ میں پانی کے جھگڑوں سے مایوس ہو کر طنز بھرے لہجے میں لکھا تھا کہ ”وہسکی پینے کیلئے ہے اور پانی لڑائی کیلئے“۔
اقوام اور علاقوں کے درمیان پانی پر تنازعات کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ تاہم دریاﺅں پر قابو پاکر آبی ذخائر تعمیر کرنے کی صلاحیت حاصل ہونے کیساتھ ان تنازعات نے شدت اختیار کرلی۔آبی ذخائر ڈیموں کی تعمیر پر زیریں علاقوں میں رہنے والے لوگ ہمیشہ بالائی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہے ۔کیونکہ اِس طرح زیریں علاقوں کیلئے دریاﺅں کے پانی کا بہاﺅ متاثر ہوسکتا تھا۔ ان تنازعات کے نتیجے میں اصول اور قوانین وضع کئے گئے تاکہ زیریں علاقوں میں آباد لوگوں کے پانی استعمال کرنے سے متعلق تاریخی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔
پہلے پہل پیشن گوئی کی گئی تھی کہ اقوام اور علاقوں کے درمیان مشترک دریاﺅں اور آبی وسائل پر جنگ ہو گی۔ تاہم تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صورتِحال اسکے برعکس ہے۔ جنگوں میں الجھنے کی بجائے بیشتر صورتوں میںکئی ممالک باہمی تعاون اور پائیدار معاہدوں کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
پاکستان میں سمجھا جاتا ہے کہ پانی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، مگر اِس سلسلے میںبین الاقوامی تنازعات کے کامیاب حل سے ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے، کہ ہم بھی اپنے آبی تنازعات بشمول کالاباغ ڈیم جیسے غیر معمولی مسئلے کو حل کرنے کیلئے اتفاقِ رائے کے امکان کو تلاش کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں پانی کے مسائل پر اتفاق میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر واٹر مینجمنٹ اور تنازعات کے حل کے بارے پوری طرح واقف نہیں۔ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہیے¿ کہ یہ مسائل صرف پاکستان میں ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے ممالک نے بھی اِن مسائل کا سامنا کیا ہے اور اکثر صورتوں میں وہ ان کا حل تلاش کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ پانی کے بارے میں دنیا بھر کے بین الاقوامی اور قومی تنازعات کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے نہ صرف ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے جن کی وجہ سے ہم باہمی تعاون کے کسی متفقہ معاہدے تک نہیں پہنچ پاتے۔
محترم قارئین! اِس ضمن میں ایک واقعہ مثال کے طور پر پیش کرنا چاہوں گا، جس کی بدولت ہمارے ملک میں پانی کے مسائل پر اتفاقِ رائے کا حصول بری طرح متاثر ہوا۔ پانی کے مسائل پر اتفاقِ رائے کیلئے جنرل پرویزمشرف نے نومبر 2003 ءمیں ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی اور ایک قابلِ احترام انجینئرجناب اے این جی عباسی کو اس کا چیئرمین تعینات کیا۔ عباسی صاحب زرعی معیشت کیلئے آبی ذخائر کی تعمیر کی ضرورت سے بخوبی آگاہ تھے،تاہم انہیں اس بات کا موقع نہ مل سکا کہ وہ آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر ہونے والی پیشرفت کا مطالعہ کرسکیں۔اِنکی رپورٹ میں اِس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وُہ دنیا کے چندبڑے دریاﺅں میںپانی ذخیرہ کرنے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند تھے لیکن کمیٹی میں شامل دیگر ارکان نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ٹیکنیکل کمیٹی اِس بات کیلئے تیار ہوجاتی تو انکی جانب سے بنائی گئی رپورٹ یکسر مختلف ہوتی۔ بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے بھی دوراندیشی پر مبنی کردار ادا نہیں کیا اور کمیٹی کے ارکان کیلئے اس اہم بین الاقوامی مطالعہ کا موقع ضائع کر دیا گیا، ورنہ اس مطالعہ کی بدولت پانی کے مسائل پرصوبوں کے درمیان کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے میں مدد مل سکتی تھی۔