خبرنامہ پاکستان

ذوالفقار کی رہائی: وزیراعظم انڈونیشیا کے صدر سے بات کرینگے، خواجہ آصف

ذوالفقار کی رہائی: وزیراعظم انڈونیشیا کے صدر سے بات کرینگے، خواجہ آصف

اسلام آباد:(ملت آن لائن) وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے انڈونیشیا میں 14 سال سے قید اور کینسر کے مرض میں مبتلا پاکستانی شہری ذوالفقار علی کے معاملے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی انڈونیشیا کے صدر کے دورہ پاکستان کے دوران بات کریں گے۔ خیال رہے کہ انڈونیشیا کے صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے 26 جنوری کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔اگر شاہد خاقان عباسی انڈونیشیا کے صدر سے ملاقات کے دوران ذوالفقار علی کی رہائی کی بات کرلیں تو ان کو اپنی زندگی کے آخری ایام اپنی والدہ اور بچوں کے ساتھ گزارنے کا موقع مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم صاحب پہلے ہی اس مسئلے سے آگاہ تھے، میری ان سے بات ہوئی ہے، وہ انڈنیشیا کے صدر سے بات کریں گے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معافی دے دی جائے تاکہ جتنی ان کی سزا باقی ہے وہ پاکستان میں کاٹ سکیں۔‘وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ ذوالفقار علی بے گناہ ہیں اور ان کے خلاف جنہوں نے گواہیاں دیں، انہوں نے بھی انہیں واپس لے لیا گیاہے، امید ہے معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم پرامید ہیں کہ انڈونیشیائی صدر پاکستانی درخواست پر انکار نہیں کریں گے اور معاملہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر حل ہوجائے گا۔
ذوالفقارعلی کی گرفتاری اورعدالتی کارروائی
انڈونیشیا میں قید کینسر کا مریض پاکستانی شہری حکومتی توجہ کا منتظر
52 سالہ ذوالفقار علی لاہور کے رہائشی اور 5 بچوں کے والد ہیں جو 17 سال قبل روزگار کی تلاش میں انڈونیشیا گئے تھے۔ 21 نومبر 2004 کو انڈونیشیا کے مغربی صوبے جاوا میں انہیں 3 سو گرام ہیروئن رکھنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا جو کہ ایک بھارتی شہری نے ان پر عائد کیا تھا جو بعد میں واپس لے لیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ذوالفقار علی کو 2005 میں ہیروئن رکھنے کے جرم میں پہلی مرتبہ سزائے موت سنائی گئی تھی۔ غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق ذوالفقار علی کو نومبر 2004 کوحراست میں لیا گیا تھا اور تفتیش کے دوران ذوالفقار پر تشدد کرکے بیان لیا گیا۔ تشدد کی وجہ سے ذوالفقار علی کو معدے اور گردوں کا آپریشن بھی کرانا پڑا تھا، مقدمے کے دوران انہیں ایک ماہ تک کوئی وکیل مہیا نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستانی سفارت خانے کے کسی اہلکار نے ان سے رابطہ کیا۔ ذوالفقار انڈونیشیا کی مقامی زبان سے ناواقف ہیں اور انگریزی بھی تھوڑی بہت جانتے ہیں۔ انہیں تمام تر عدالتی کارروائی کے دوران انگریزی میں محدود معاونت ہی حاصل ہو پائی۔ انڈونیشیا کی پولیس ذوالفقار کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کے لئے کسی بھی قسم کے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی اس کے باوجود انہیں موت کی سزا سنادی گئی۔
پاکستان کی مداخلت
2016 میں ذوالفقار کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کی نیند سلانے کے احکامات جاری ہوئے تھے۔ تاہم جولائی 2016 میں سماجی تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی کوششوں اور میڈیا مہم کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے اعلیٰ سفارتی سطح پر مداخلت کی گئی جس کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق 2010 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر انڈونیشیا کے اس وقت کے صدر نے تحقیقات کا حکم دیا تھا جس میں ذوالفقار بے گناہ ثابت ہوا تھا لیکن ان کو تاحال رہائی نہیں مل سکی۔ کینسر میں مبتلا ذوالفقار کی درخواست ہے کہ انہیں زندگی کے آخری لمحات اپنے اہلخانہ کے ساتھ گزارنے دیے جائیں۔