خبرنامہ پاکستان

رقوم کیلئے ڈاکے ڈالے، بینظیر پر حملے بھی کیے، پاکستانی طالبان کا اعتراف

رقوم کیلئے ڈاکے ڈالے، بینظیر پر حملے بھی کیے، پاکستانی طالبان کا اعتراف

اسلام آباد: (ملت آن لائن) کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک نئی کتاب میں پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو پر 2007ء میں حملے طالبان نے کئے تھے۔ طالبان نے اعتراف کیا کہ رقوم کے حصول کیلئے بینکوں میں ڈاکے بھی ڈالے، متعدد ملکی اور غیر ملکی افراد کو اغوا کر کے تاوان وصول کیا اور کراچی کی بندرگاہ پر نیٹو کیلئے آنے والا اسلحہ بھی کئی بار لوٹا۔ خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے بعد فائرنگ اور خود کش حملے میں جاں بحق ہو گئی تھیں۔ اس وقت کی پرویز مشرف حکومت نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا، مگر اس وقت طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ ”انقلاب محسود، فرنگی راج سے امریکی سامراج تک“ نامی کتاب کے مطابق طالبان تحریک کے بانی بیت اللہ محسود نے بینظیر بھٹو کے قتل کی منظوری دی تھی کیونکہ طالبان رہنماؤں کا خیال تھا کہ بینظیر کو امریکا نے ایک منصوبے کے تحت شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کیلئے بھیجا ہے۔ بینظیر بھٹو پر حملے کیلئے سعید کے نام سے معروف بلال نامی شدت پسند کو دوسرے شدت پسند اکرام اللہ کیساتھ بھیجا گیا۔ سعید نے پہلے بینظیر پر فائرنگ کی جس سے انہیں گلے میں گولی لگی، بعد ازاں جسم سے نصب بم سے دھماکا کیا جبکہ اکرام اللہ حملے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، وہ ابھی تک زندہ ہے۔ کتاب کے مصنف ابو منصور عاصم مفتی نور ولی کے بارے میں طالبان کے ایک رہنما نے بتایا کہ وہ بیت اللہ محسود کے معتمد ساتھیوں میں سے تھے۔ 600 صفحات پر مشتمل کتاب افغانستان کے صوبے پکتیکا کے علاقے برمل سے چھاپی گئی ہے۔ پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کی طرف سے اکثر موقف سامنے آیا کہ محسود طالبان پکتیکا اور پکتیا میں موجود ہیں۔ کتاب کے مطابق اکتوبر 2007ء کو کراچی میں بینظیر بھٹو کے جلسے میں خود کش حملے بھی طالبان کے شدت پسندوں محسن محسود اور رحمت اللہ محسود نے کئے تھے، جن میں 140 کے لگ بھگ لوگ جاں بحق ہوئے۔ کتاب کے مطابق دو حملہ آوروں نے واضح ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس کے اندر دھماکے کئے حالانکہ انہیں سٹیج کے قریب رہنے کا کہا گیا تھا۔ کتاب کے مطابق چونکہ کارساز حملوں میں بینظیر بھٹو محفوظ رہی تھیں، اس لئے تین دن بعد لاڑکانہ میں بھی حملے کا پروگرام بنایا گیا مگر طالبان میں موجود ایک جاسوس نے پولیس کو معلومات فراہم کر دیں جس سے منصوبہ ناکام ہو گیا۔ کتاب میں کہا گیا کہ بینظیر کو مشرف حکومت نے کراچی حملوں کے باوجود مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی تھی، جس کے باعث حملہ آوروں کی باآسانی بینظیر بھٹو تک رسائی ممکن ہو گئی تھی۔ کتاب میں تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ، اس کے حملوں، قبائلی علاقے میں فوجی آپریشن کے علاوہ افغانستان میں تحریک طالبان کی سرگرمیوں، قبائلی نظام، تحریک طالبان پاکستان میں محسود قبیلے کے کردار، تحریک طالبان کے کراچی میں آپریشن اور پولیو ویکسین کے خلاف اس کی مہم کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطابق تحریک طالبان کے بعض گروپوں نے 2015ء میں بیرونی ملکوں سے مدد لینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا۔ طالبان کے ایک سابق رہنما کے مطابق کتاب کی اکثر معلومات درست ہیں اور مصنف بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی تھے۔ یاد رہے کہ بیت اللہ محسود 2009ء میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔