اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت دفاع سے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی جانب سے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کی جانے والی تحقیقات کی رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل سنگل رکنی بینچ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور وزرات دفاع کی طرف سے بریگیڈیئر (ر) فلک ناز عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کی وجوہات کیا ہیں؟ اس پر وزارت کے نمائندے نے بتایا کہ اسد درانی نے بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینالسز ونگز (را) کے سابق چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھی اور اس معاملے پر جی ایچ کیو میں اسد درانی کے خلاف تحقیقات زیر التوا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ تحقیقات مکمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا، جس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے جواب دیا کہ ابھی کچھ نہیں بتا سکتا کہ کب تحقیقات مکمل ہوگی۔
اس دوران عدالت نے ہدایت کی کہ وزارت دفاع جی ایچ کیو کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے، ساتھ ہی عدالت نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کی وجوہات پر وزارت داخلہ کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔
دوران سماعت فلک ناز نے بتایا کہ سیاستدانوں کو پیسے تقسیم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے پربھی تحقیقات ہورہی ہے۔
اس پر اسد درانی کے وکیل فخر آدم نے کہا کہ ہمیں تحقیقات کے حوالے سے کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا، ایک دفعہ چائے پر جی ایچ کیو بلایا گیا، وہاں صرف گپ شپ ہوئی۔
وکیل اسد درانی نے کہا کہ ایئرمارشل اصغر خان کیس میں جنرل (ر) اسلم بیگ کا نام تو ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مؤکل کو 26، 27 نومبر کو بیرون ملک کانفرنس میں جانا ہے، لہٰذا ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جب تک تحقیقاتی رپورٹ اور وزارت داخلہ کا جواب نہیں آجائے، کچھ نہیں ہوسکتا۔
بعد ازاں عدالت نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کردی۔
سماعت کے بعد سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی، اس دوران صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان میں سویلین اگر کتاب لکھیں تو انہیں غدار کیوں قرار دیا جاتا ہے؟
اس پر اسد درانی نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے، اعتزاز احسن نے بھی بھارتی مصنف کے ساتھ مل کر کتاب لکھی ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے پاس ملک کے اہم راز ہوتے ہیں، کیا اس کا معلومات شیئر کرنا مناسب ہے؟
اسد درانی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے حاضر سروس آئی ایس آئی چیف بھی را کے چیف سے ملتے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال مئی میں لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور بھارتی ایجنسی (را) کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی جانب سے مشترکہ طور پر تحریر کردہ کتاب ’دی اسپائی کرونیکلز‘ کی اشاعت کی گئی تھی، جس میں کئی متنازع موضوعات پر بات کی گئی تھی۔
اس کتاب کے سامنے آنے کے بعد پاک فوج کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اسد درانی کو ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر پوزیشن واضح کرنا ہوگی، کیونکہ اس کا اطلاق تمام حاضر اور ریٹائرڈ اہلکاروں پر ہوتا ہے۔
بعد ازاں پاک فوج نے انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی کتاب سے متعلق معاملات کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کے خلاف حاضر سروس لیفٹننٹ جنرل کی سربراہی میں تحقیقات کی جائے گی۔