خبرنامہ پاکستان

سرجری کاپل صراط۔۔۔اسداللہ غالب

مریم نواز شریف نے درست کہا ہے کہ جو لوگ باتیں بنا رہے ہیں ، خدا نہ کرے کبھی ان کے پیاروں کو، کو ئی بیماری لاحق ہو۔
وزیر داخلہ چودھری نثار کابھی یہ گلہ اپنی جگہ پر درست ہے کہ عمران اور بلاول آج کے دن تو زبان طعن دراز نہ کرتے۔
میری رائے تھی کہ چند روز کے لئے ملکی سیاست میں سیز فائر ہو جانی چاہئے۔
مگر آپ کسی کی زبان نہیں پکڑ سکتے،؂ْ
پتہ نہیں وہ کونسا معاشرہ ہے جہاں ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے۔
جن لوگوں کو اپنے کسی پیارے کی بیماری سے سابقہ پڑتا ہے، وہ جانتے ہیں کہ اس پل صراط کو عبور کرناکس حد تک مشکل کام ہے۔
یہ کہنا بڑاآسان ہے کہ دل نیا اور تازہ دم ہو گیا ہے مگر خدا نہ کرے، خدا نہ کرے، یہ مصیبت کبھی کہنے والے کے اپنے گلے پڑ جائے۔پھر آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔
لوگ تو باتیں بناتے ہی ہیں ،اب تو ڈاکٹر بھی اخلاقیات کو ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور مریض کی حالت پر ناشتے اور ڈنر کی میز پر غیر متعلقہ لوگوں کے سامنے کمنٹری کرتے ہیں۔ڈاکٹروں کو کون بتائے کہ ڈاکٹرا ور مریض کا وہی رشتہ ہے جو میاں ا ور بیوی کا ہوتا ہے۔میں ایک بار ممتاز مفتی کے پاس گیا۔ان سے کوئی معاہدہ کرناتھا ، انہوں نے کہا کہ آپ نے ایسے معاہدے ا ور لوگوں سے بھی کئے ہوں گے، میںآپ سے ان کی تفصیل نہیں پوچھتا ، آپ میرے معاہدے کی شرائط کسی کو مت بتائیں۔سمجھ لیں کہ یہ معاہدہ نکاح نامے کی طرح سراسر پرسنل دستاویز ہے۔
پارلیمانی اپوزیشن نے تو ٹی؂ ا ور کمیٹی میں شور محشر برپا کر دیا ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ حکومت احتساب میں سنجیدہ نہیں ہے۔۔ اس سے حکومت کو ہی نقصان ہو گا۔اس اپوزیشن سے سوال کیا جاناچاہئے کہ بارہ اپریل سے لے کر اب تک آپ نے کس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، وزیر راعظم نے بغیر کسی مطالبے کے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا، پھر دوسرا کمیشن بنایا، مگر اپوزیشن کہہ مکرنیاں دیکھنے کے لائق تھیں، کبھی مطالبہ آتا کہ ایف آئی سے تحقیقات کرائی جائے، کبھی مطالبہ داغا جاتا کہ نیب سے کرای جائے، کبھی کہا جاتاکہ بیرونی آڈٹ فرموں کوہائر کیا جائے، کبھی فرانزک لیبارٹری کی بات کی جاتی، اس سے صاف ظاہر تھا کہ ا پوزیشن کو بھی احتساب قبول نہیں تھا کیونکہ ان کی صفوں میںآف شور کا ڈھیر لگا تھا اور اے ٹی ایم کمپنبیاں بے حساب تھیں۔اعتزاز احسن کل بھی کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم کو حساب کتاب سے باہر نہیں کیا جا سکتا ،، بالکل نہ کریں جناب !ْ مگر کیوں نہ پہلے سوئس اکاؤنٹ کا حساب کر لیا جائے اور اس لین دین کی چھان بین کر لی جائے جو مشرف ا ور محترمہ کے مابین ہوا اور جسے سابق چیف جسٹس نے وائڈ اب نشو قرار دے ڈالاتھا۔اسی فیصلے کی زد میں آکر وزیر اعظم گیلانی کو گھر جانا پڑا تھا، یہ حساب کتاب تو معطل پڑا ہے ا ور سوئس بنکوں کا پیسہ کسی فرد کے کام نہیں آیا، نہ ملک و قوم کے کام آیا، اعتزاز کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے تحائف کا حساب نہیں مانگتے ، شاید ا سکے جواب میں وہ یہ چاہتے ہوں کہ ان کی مرحوم لیڈر کو ملنے والے گراں قدر تحائف کا حساب بھی نہ مانگا جائے۔ اعتزاز سیاست میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ اور ردیف قافیے کا خیال ضرور رکھتے ہیں، تاکہ سیاسی اشعار کا مطلب سمجھنا مشکل نہ ہو۔
کہا جا رہا ہے کہ ملک اسوقت قیادت سے محروم ہے۔ وزیر اعظم علاج کے لئے ہسپتال میں ہیں ، وزیر اعلی پنجاب ان کی خبر گیری کے لئے لندن میں ہیں اور ظاہر ہے جلد واپس نہیں آ سکتے۔اس کے علاوہ ا ور کون حکومتی شخصیت باہر ہے، آرمی چیف ترکی میں ہیں مگر ان کا نام کسی نے نہیں لیا، نہ کسی میں جرات ہے کہ ان کے بارے میں بات کرے، اچھا ہے کسی کاتو سبھی ا حترام کرتے ہیں ، یہ احترام اپنے وزیر اعظم کو بھی ملنا چاہئے ،کم از کم ان کی علالت کے دوران تو اپوزیشن کو اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ویسے جن لوگوں نے الیکشن کے بعد دھاندلی کے نعرے کی آڑ میں دھرنا مچایا، اب انہیں پانامہ لیکس کا درد لاحق ہو گیا ہے تو ان سے کسی اخلاق کی توقع عبث ہے۔
اپوزیشن بولنے اور نعرے لگانے کا ماہر ہوتی ہے،یہ ا س کا حق بھی ہے مگر جب سے بھارتی را کا ایجنٹ کل بھوشن پکڑا گیا اوراسکے بعد درجنوں مزید را کے ایجنٹاور افغان ایجنٹ پکڑے جا رہے ہیں تو اپوزیشن بھارت ا ور افغانستان کے خلاف واویلا کیوں نہیں کرتی۔کیاا سے ان دونوں ملکوں کی کارستانیوں پر کوئی اعتراض نہیں، میں تو یہ شک کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں مگر اپوزیشن کی زبان کو جو ٹانکے لگے ہیں ، وہ کیوں نہیں کھلتے ا ور یہ صرف حکومت کے خلاف واویلا مچانے کے لئے کیو ں کھلتے ہیں۔اور غضب ہے کہ وہ آئی سی یو میں ہیں ، ان کے چار بائی پاس ہوئے۔مگر زبانیں ہیں کہ گز بھر لمبی ہو تی جا رہی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اسکائپ پر بجٹ اجلاس سے خطاب ملک کے لئے خطر ناک ہے۔عمران یہ سوال اپنے سوشل میڈیا کے جنات سے پوچھیں تو وہ ان پر ہنسیں گے کہ ان کا لیڈر جدید ٹیکنالوجی سے باکل بے بہرہ ہے۔ امریکہ کہاں سے ڈرون مارتا ہے، بی باون کہاں سے ا ڑتے ہیں اور کہاں بم گراتے ہیں، کروز میزائل کہاں سے داغے جاتے ہیں، ان کا نشانہ کون بنتا ہے، اسامہ کے خلاف آ پریشن کے دوران امریکی صدر اوبامہ کیمروں پر کیوں بیٹھا تھا، کیا اسے اسامہ کے گھر کا کونہ کونہ نظر نہیں آرہا تھا، کیا وہاں سوئی کے گرنے کی آواز بھی وہ نہیں سن رہا تھا۔یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے جناب ، اگرآپ اس کو سمجھنے اوراسے ا ستعمال کرنے سے قاصر ہیں تو دوسروں کو اس کے ا ستعمال سے کیوں روکتے ہیں ، آج ہی داعش نے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمان اپنے ٹی وی سیٹ توڑ دیں۔ کوئی نئی داعش آئے گی جو واٹ ایپس، اسکائپ ، ٹوئٹر، اور ویڈیو لنک کو خلاف آئین قرار دے دے گی۔
وزیر اعظم سرجری کا پل صراط عبور کر آئے، یہ اللہ کا فضل ہے ۔ ابھی ریکوری کا مرحلہ در پیش ہے، خدا کرے کہ دعاؤں کے صدقے وہ بھی بخیر و خوبی طے ہو جائے !!