خبرنامہ پاکستان

سعودی دھماکے:سر شرم سے جھک گیا۔۔۔اسداللہ غالب

روز حشر میں کیا منہ دکھاؤں گا اپنے آقا ﷺ کو کہ آپ کے شہر کی حفاظت سے میرے ملک نے صاف انکار کر دیا تھا۔
میں آج دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ گیا کہ ایک سعودی دھماکے میں پاکستان کا شہری ملوث نکلا۔ سعودی پولیس ہماری طرح اندھی گونگی اور بہری نہیں کہ خود کش بمبار کے اعضا لے کرگھومتی رہے، اس نے تحقیقات کیں اور جھٹ سے بتا دیا کہ جدہ میں دھماکہ کرنے والا پاکستان کا شہری گلزار خان ہے۔
سعودی پولیس کی تفتیش کی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ ا س نے شہر نبی میں دھماکہ کرنے والے کو شناخت کرنے میں کسی تاخیر کا مظاہرہ نہیں کیا، یہ شخص اس کے ملک کا باشندہ ہے اور سعودی پولیس کو مطلوب تھا۔
مجھے یقین ہے کہ ہم نے سعودی درخواست کو در خور اعتنا سمجھا ہوتا اور ہمارے فوجی دستے اس ملک میں موجود ہوتے تو کسی شیطان صفت کو جدہ اور مدینہ کے قریب پھٹکنے کی جرات نہ ہوتی۔ میں اپنی فوج کی ا س صلاحیت کا تو دل سے معترف ہوں، میں اپنے انٹیلی جنس نظام پر فخر کرتا ہوں، ہم نے سری لنکا کو یہ انٹیلی جنس نظام دیاا ورا سکی مدد سے سری لنکا نے دہشت گردی کی جنگ جیت لی مگر مجھے وہ وجہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم نے سعودی عرب کو گھاس کیوں نہ ڈالی، وہ کہتا رہا کہ دشمن گوآج یمن میں ہے مگر اس کا اصل نشانہ سعودی عرب بنے گا اور سعودی عرب میں بھی بیت اللہ اور شہر نبی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے مگر ہم نے سعودی چیخ وپکار پر کان نہ دھرے، ہمارے وزیر اعظم صاحب دو مرتبہ اعلی سطحی وفد کے ساتھ سعودی عرب گئے، آرمی چیف بھی ساتھ گئے مگر شاید ان کے ذہنوں پر پارلیمنٹ میں سعودی عرب کے خلاف کی جانے والی دھواں دار تقریروں کا دباؤتھا کہ سعودی عرب داد فریاد ہی کرتا رہ گیا۔ ہم نے تو سعودی شاہ سلمان کے بیٹے، اس ملک کے وزیر دفاع اور ولی عہد تک کو اسلام آباد میں آنے کے باوجود کسی پذیرائی کا حقدار نہ سمجھا، کیا ہمیں سعودی عرب سے کوئی بیر تھا، کہا جاتا ہے کہ سودی عرب کو تو ہم برادر دوست ملک ہی تصور کرتے ہیں مگر ہمیں اپنے ایک ا ور برادر ہمسائے ایران کے جذبات کاخیال آ گیا کہ کہیں اس کی ناراضگی نہ مول لینی پڑ جائے،مصلحت کے لحاظ سے یہ احتیاط اچھی تھی مگر ایران کو اعتماد میں لے کر ہم سعودی عرب کی مدد کے لئے راستہ نکال سکتے تھے، آج ایران کہتا ہے کہ سعودی عرب کے دھماکے قابل مذمت ہیں اور ایسی دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے مسلم امہ کو اتحاد کا رستہ اختیار کرنا ہو گا تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستان نے اس اتحاد کے لئے ہی کوئی کوشش کی ہوتی، ایک پھیرا ہم نے ضرور لگا یا مگر خارجہ امور کو سلجھانے کے لئے بار بار کے پھیرے ضروری خیال کئے جاتے ہیں، ایران ا ور امریکہ نے کسی وقت بھی ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کا سلسلہ منقطع نہیں کیاا ور بالآخرا س کا حل نکل آیا۔ تو عرب و عجم کو متحد کرنے کے سلیقے سے ہم کیوں محروم رہے ۔ بس ایک پھیرے میں ہی ہم تھک گئے یا اکتا گئے، کیوں، آخر کیوں۔
یہ دن تو پھر آنا ہی تھا جس کا ڈر تھا کہ یہ آ کے رہے گا، بلکہ جب سے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں الجھایا گیا ہے، تب سے مجھے احساس تھا اور میں ا س خدشے کااظہاربھی کرتا رہا کہ ہمیں ا س قدر تھکا دیا جائے گا کہ ہم کسی کی مدد کے قابل ہی نہیں رہیں گے، شکر کیجئے کہ اپنی حفاظت کے ابھی تک قابل ہیں۔
سعودی عرب کے دھماکوں پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے، یہ قیامت کی گھڑی ہے، یا روز محشر ہے،یہ ہمارے دلوں کو کس نے چیر کے رکھ دیا، کاش! مسجد نبوی میں دھماکہ کی منصوبہ بندی کرنے والا اپنا بم میرے سینے پر مار دیتا، میری اولاد پر دے مارتا، میرے ماں باپ کی قبروں پر دے مارتا۔وہ کام جو ڈیڑھ ہزار برس میں کفار کے لشکر نہیں کر سکے، وہ اس نے کیسے سوچ لیا۔ کیا ا س کا خیال تھا کہ امت مسلمہ واقعی خواب خرگوش میں مست ہے ، کیا اسے وہم تھا کہ ہم روضے کی جالیوں کے سامنے جھوٹ موٹ گریہ و فریا د کرتے ہیں۔ کیا ا س نے یقین کر لیا تھا کہ ہمارے پتے میں پانی نہیں۔
شاید ا س کا خیال درست ہی ہو۔
جس ملک نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے لئے خزانوں کے منہ کھول دیئے اور جس نے ہمیں ایسے ایسے میزائلوں سے لیس ہونے کا موقع بہم پہنچایا جو ترقی یافتہ دنیا کے پاس بھی نہیں ہیں مگر یہ ملک وقت آنے پر مٹی کا مادھو نکلا، ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم کی تصویر بن گیا۔ ہم نے کیاکرنے ہیں یہ سارے ایٹم بم اور سارے میزائل ، کیا اپنے سر پہ مارنے ہیں، ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ہماری ساری پہچان تو اللہ کے گھرا ور شہر نبی کے واسطے سے ہے، ان کے بغیر ہم کیا ہیں، حقیر کیڑے مکوڑے ۔
مجھے اپنی اور آپ کی بے بسی پر ترس آتا ہے، کہ سعودی عرب کی امداد کے فیصلے میں میرا اورآپ کا کوئی کردار کیوں نہیں تھا اور یہ جو پارلیمنٹ میں لوگ بیٹھے ہیں ، یہ ہمارے جذبات کا پاس لحاظ کیوں نہ کر سکے اور انہوں نے جو فیصلہ کیا اورا س کے نتیجے میں سعودی عرب تنہا رہ گیا اور دہشت گردوں نے ا یک ہی روز میں ا س کو ہی نہیں پوری امت مسلمہ کو لرزا کر رکھ دیا تو یہ فیصلہ کس کے کہنے پر، کس کے ایما پرا ور کس کوخوش کرنے کے لئے کیا گیا۔اور اگر یہ فیصلہ ایران کی خوشنودی کے لئے کیا گیا تو کیا ایران ہم سے خوش ہے۔اور کیا ایک ایران کو خوش کرنے کے لئے تما م عرب اور خلیجی ممالک کی ناراضگی مول لینا دانش مندانہ فیصلہ تھا اور کیا شہر نبی کو تنہا چھوڑ دینا ہماری عاقبت کو خراب کرنے کا باعث نہیں بنے گا، دنیا کی نظروں میں تو ہم رسو اہو چکے کہ وقت پڑنے پر ہم محسنوں کے دوست نہیں رہتے ۔
اگر ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ پاک چین کوریڈور کی سیکورٹی کے لئے ایک ڈویژن فوج مزید کھڑی کر لی جائے تو یہ فیصلہ کیوں نہیں کر سکے کہ ایک ڈویژن فوج فوری طور پر مکہ ا ور مدینہ کی سیکورٹی کے لئے بھجوا دی جائے۔کیا پاک چین کوریڈور کا تقدس مکہ اور مدینہ سے بڑھ کر ہے۔
مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم ملک میں ہوتے اور صحت یاب ہو چکے ہوتے تو وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر روضہ رسول ﷺ پر حاضرہو جاتے اور پاکستان کی کوتاہی پر اشک ندامت بہاتے، کیا ان کی عدم موجودگی میں پاکستان میں کوئی ایسی ہستی نہیں جسے روضہ رسول ﷺ کی سیکورٹی کا خیال دامن گیر ہو۔
میں سعودی سیکورٹی کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے اپنی جانیں دے کر مسجد نبوی کے نمازیوں کو تباہی سے محفوظ رکھا۔