خبرنامہ پاکستان

سوئس بینکوں سے پاکستان کا سرمایہ واپس لایا جائے: سید نوید قمر

اسلام آباد :(اے پی پی) مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے پاناما لیکس کو انتہائی اہم معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی شفاف تحقیقات یقینی بنانے کی ضرورت ہے ، سوئس بینکوں سے پاکستان کا سرمایہ واپس لایا جائے، پاناما لیکس کی تحقیقات وہ لوگ کریں جن پر کوئی الزام نہ ہو، سب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہئے، کرپشن فری پاکستان بنانے کے لئے کل جماعتی کانفرنس طلب کی جائے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں پاناما لیکس پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے کہا کہ اس معاملے کی شفاف اور منصفانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ نیب کو آزاد اور خودمختار ادارے کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ ایم کیو ایم کے رکن سید آصف حسنین نے کہا کہ اگر اہم عہدوں پر فائز لوگوں کے گوشواروں میں آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ نہیں دکھایا گیا تو یہ بددیانتی کے مترادف ہے۔ پارلیمنٹ کی سفارشات کے مطابق تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاناما پیپرز کے بعد سوئس بینکوں سے پاکستان کا سرمایہ بھی واپس لانا ہوگا۔ تحقیقات وہ لوگ کریں جن پر کوئی الزام نہ ہو۔ بلا امتیاز سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ کرپشن گراس روٹ لیول تک آ چکی ہے، 1947ء سے 1985ء تک ہمارے کسی لیڈر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔ کرپشن فری پاکستان ہی ترقی کر سکتا ہے۔ پاناما پیپرز اور کرپشن کے سدباب کے لئے اے پی سی طلب کی جائے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ پاناما لیکس کے حوالے سے بحث ہر گھر اور ملک کے ہر حصہ میں چل رہی ہے۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس حکومت اور اس پورے نظام کے خلاف کوئی سازش کی جا رہی ہے، ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاناما پیپرز کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ یہ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء جہانگیر خان ترین نے کہا کہ ہم اس مسئلہ کی گہرائی میں اس لئے جانا چاہتے ہیں کہ حقائق قوم کے سامنے آئیں۔ انہوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن کے قیام کی حمایت کی اورکہا کہ باقی 200 لوگوں کے حوالے سے تحقیقات ایف بی آر کے ذریعے کی جائیں۔ رضا حیات حراج نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا تقدس، عزت اور وقار ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ 2002ء سے 2007ء تک کی حکومت نے اتفاق فاؤنڈری کے ٹیکسوں کے حوالے سے مکمل چھان بین کی ہے مگر وہ میاں نواز شریف کے خاندان پر ٹیکس میں خورد برد کا کوئی الزام سامنے نہیں لا سکی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں وکیل اور مؤکل، ڈاکٹر اور مریض اور بنکرز اور کھاتہ دار کے درمیان ہونے والی کمیونیکیشن کو ہمیشہ تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اس کی تفصیلات حاصل کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس معاملہ پر فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے، یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اگر ان کی مرضی کے خلاف کمیشن بنے گا تو وہ دھرنا دے گا، یہ روایت درست نہیں ہے، انہیں ڈیموں کی تعمیر، زراعت کی بہتری اور عوام کے دیگر مسائل کے حوالے سے دھرنے دینے چاہئیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جن پاکستانیوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں اس کی وجوہات سامنے آنی چاہئیں ۔ ہمیں ان معاملات پر محاذ آرائی کی بجائے سنجیدہ طرز عمل اختیار کر کے سوچ بچار سے کام لینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس نماز جمعہ کے وقفہ کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔