خبرنامہ پاکستان

سوشل میڈیا پر پابندی نہیں لگارہے، نثار

اسلام آباد (ملت آن لائن…نیوز ایجنسیاں)وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مادر پدر آزاد سوشل میڈیا قبول نہیں ، انہوں نے سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ کار متعارف کرانے کا اعلان کردیا۔ فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کی تضحیک برداشت نہیں کی جائے گی، آئین کہتا ہے کہ فوج اور عدلیہ کی توہین نہ کی جائے ، انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے آئین ، قانون اور اقدار پر حملہ کیا گیا، تضحیک آمیز پوسٹس سے متعلق 27 آئی ڈیز کا پتا چلایا گیا، 6 افراد سے پوچھ گچھ ہوئی ، لیپ ٹاپ اور فون کے فرانزک ٹیسٹ کے بعد مزید سے پوچھ گچھ کرینگے ۔ اب تک کوئی گرفتار نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا سمیت ہر چیز پر قومی سلامتی مقدم ہے ۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگا ئی ، مادرپدر آزادی کو کنٹرول کر رہے ہیں، عمران خان شناخت کریں ، ن لیگ کے کسی شخص نے فوج یا عدلیہ کیخلاف پوسٹ کی ہو تو پکڑیں گے ، کچھ لوگ آزادیٔ اظہار کے مامے چاچے نہ بنیں،عمران خان اگر ایسی پوسٹس دیکھ لیتے تو کبھی بھی احتجاج کی دھمکی نہ دیتے ، سوشل میڈیا پر کچھ ایس او پیز (ضوابط کار) اتفاق رائے سے طے کیے جائینگے ، بھارت ،سری لنکا اور یورپ کی طرح تبدیلیاں لائیں گے ، اسپیکر سے تمام پارٹیز کے نمائندوں سے ملاقات کیلئے کہوں گا ، سوشل میڈیا کیلئے ایس او پیز بنانے کیلئے اسپیکر سے درخواست کروں گا، متفقہ ایس او پیز پر مجھے اعتراض نہیں ہوگا، سوشل میڈیا پر گند سے مستقبل کی نسل کو بچانا چاہتے ہیں، کارروائی شروع کی تو گستاخانہ مواد شیئر کرنے میں کمی آئی، پاکستان سے اپ لوڈ کی جانیوالی پوسٹس کے ذمے داروں کو بلا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2ہفتوں سے پاک فوج سے متعلق تضحیک آمیز پوسٹس سامنے آئیں،جو مواد سوشل میڈیا پر موجود تھا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بڑی تعداد میں توہین آمیز مواد سامنے آیا ۔ جب مواد سوشل میڈیا پر آیا تو وزیراعظم نے مجھے مداوا کرنے کی ہدایت کی،جب ایکشن لیا گیا تو تحریک انصاف نے سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی، کوئی بھی پاکستانی اداروں کے خلاف تضحیک آمیز پوسٹ نہیں کرسکتا۔ سوشل میڈیا پر ناقابل قبول پوسٹ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے ۔ہرادارے کے قواعد ہوتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کے نہیں، ہر کوئی جعلی اکائونٹ بنا سکتا ہے جو مرضی لکھ سکتا ہے ، اس پلیٹ فارم سے رائے عامہ ہموار ہوتی ہے ۔ سوشل میڈیا کی پہنچ بہت دور تک ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پی بی اے کے ارکان سے ملاقات اچھی رہی، قومی سلامتی سے متعلق کو ڈ آف کنڈکٹ پر اتفاق طے پایا، ضابطہ اخلاق صحافتی تنظیموں کے نمائندے اور حکومتی عہدیدار مل کر بنائیں گے ، پی بی اے ، اے پی این ایس ، سی پی این اے کے عہدیداروں سے ملاقات میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام تنظیمیں اور حکومت مل کر انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر غور کریں گے ، قومی سلامتی امور سے متعلق صحافتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے ، جبکہ میڈیا نمائندوں سے ملاقات کا سلسلہ ہر ماہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا سے جڑے لوگوں کا موقف تھاکہ کمیٹی کو سفارشات اے پی این ایس کو نہیں بھیجنی چاہئے تھیں۔ ڈان لیکس کے حوالے سے رپورٹ چند دن پہلے پبلک کی گئی اور اس کا وزارت داخلہ کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ، اس کے بعد جو بھی ایکشن اس کمیٹی نے تجویز کیے تھے ان پر عمل شروع ہو گیا اور کمیٹی کی جانب سے دی گئی ایک آخری تجویز میڈیا کے حوالے سے ہی تھی