خبرنامہ پاکستان

سپریم کورٹ سرکاری اسپتالوں میں طبی سہولتیں نہ ملنےپربرہم

اسلام آباد:(اے پی پی) سپریم کورٹ نے پولی کلینک اسپتال میںدوائوں کی چوری کے بارے میں ازخودنوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے اس کادائرہ پورے ملک تک پھیلادیاہے اوروفاقی وچاروںصوبائی حکومتوں سے سرکاری اسپتالوںکی صورت حال کے بارے میں رپورٹس طلب کرلی ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس طارق پرویز پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو سرکاری اسپتالوںکے 3سال کے اعداد وشمار، جان بچانے والی دوائوں کی موجودگی، لیبارٹریوں اور مرض کی تشخیص کی مشینوںکے بارے میں تفصیلات جمع کرانے کا حکم دیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اسپتالوں میں غریب لوگوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر چشم پوشی نہیںکر سکتے، غریب لوگ علاج کیلیے جاتے ہیں لیکن سرکاری اسپتالوں کی دوائیں فروخت اور آلات خراب کردیے جاتے ہیں، ڈاکٹری مقدس پیشہ ہے لیکن اب کاروبار بن گیا ہے۔ اسپتالوں میں فارمیسی ہے لیکن لوگ باہر سے دوائیں خریدتے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر مریض پر محنت اور اپنا دماغ استعمال کرنے کے بجائے پرائیویٹ اسپتال ریفرکردیتے ہیں، ہمارے ملک میں توکھانسی اور بخارکا علاج بھی غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ فاضل جج نے کہاکہ آڈٹ ڈپارٹمنٹ کیا سویا ہوا ہے، انھوں نے آنکھیں کیوں بندکررکھی ہیں۔ جسٹس طارق پرویزنے کہاکہ خیبر پختونخوا حکومت نے پرائیویٹ پریکٹس پرپابندی عائدکی تو سینئر ڈاکٹرمستعفی ہوگئے۔ ڈاکٹروں کو عوام کی تکلیف سے زیادہ نجی پریکٹس عزیز ہے،جو دوائی اسٹور میں500کی ملتی ہے وہ پشاور میں فٹ پاتھ پر50 روپے میں مل جاتی ہے۔ عدالت نے مزید سماعت12اگست تک ملتوی کردی۔ فاضل بینچ نے ناقص دودھ، ناقص پانی، بھینسوں کو لگائے جانے والے مصنوعی ٹیکوںاورمرغیوں کی افزائش کیلیے دی جانے والی مضرصحت خوراک کے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کومتعلقہ محکموں سے تفصیلی جواب لے کرعدالتی معاونت کے لیے طلب کرلیا۔