اسلام آباد:(ملت آن لائن) سپریم کورٹ وفاقی حکومت کو17 جنوری تک صنعتی ورکرز کو ویلفیئر فنڈ سے ادائیگیوں کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں صنعتی کارکنوں کو ورکرز ویلفیئر فنڈ سے ادائیگیوں کے معاملے کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو 17 جنوری تک ڈیتھ اور میرج گرانٹس سمیت اسکالر شپ کی بھی تمام ادائیگیاں کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ورکر ویلفیئرفنڈ کے تحت چلنے والے اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جائیں۔
دورانِ سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے میں کسی قسم کی تاخیربرداشت نہیں کی جائے گی، 124 ارب روپے رقم کا تعین ہو چکا ہے، کسی قسم کا غبن ہوا تو معاملہ نیب کو بھجوائیں گے۔
اس موقع پر خزانہ اور اوورسیز پاکستانیوں کی وزارتوں کے سیکریٹریز بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
معززجج نے ریمارکس میں کہا کہ 2013 سے کسی کو فوتگی پر رقم نہیں ملی، کہیں نہ کہیں تو کمی ہوئی ہے۔
دورانِ سماعت نمائندہ ورکرز ویلفیئر فنڈ پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب کو دسمبر تک 2 ارب اور فروری 2019 تک 3.2 ارب چاہئیں۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ سے اسکول اور اسپتال بھی چلتے ہیں، آپ اسکولوں اور اسپتالوں کی رقم تو نہیں روک سکتے۔
معزز جج کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حکومتی پالیسی میں مداخلت نہیں کریں گے، ہم وفاقی حکومت سے بالکل خوش نہیں، بیوروکریسی بندوقیں ہمارے کندھوں پررکھ کرنہ چلائے۔
سیکریٹری خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے کچھ فنڈ جاری کیے ہیں جس پر جسٹس عظمت نے حکم دیا کہ اگلی تاریخ تک گرانٹ جاری کریں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نےعدالت میں رپورٹ جمع کرائی۔
جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ کیا سرکاری ملازمین ہمارے ساتھ سچ نہیں بولیں گے؟ حکومت کے لوگ عدالت سے آدھا سچ بول رہے ہیں، دو حکومتی عہدے دار ایک شمال کی بات کرتا ہے ایک جنوب کی طرف جارہا ہے، کس سے پوچھیں کوئی بھی مکمل سچ نہیں بولتا۔
سیکریٹری خزانہ نے معزز جج سے کہا کہ عدالت جوپوچھے گی بتاؤں گا۔
اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جب اعتماد ختم ہو جائے پھر کچھ نہیں ہوسکتا، اب آپ کو مزید نہیں سنیں گے، صرف فیصلہ لکھوائیں گے، وفاقی حکومت کیوں پیسہ ورکرز ویلفیئر فنڈ میں منتقل نہیں کررہی؟ آپ صرف یہ بتادیں کتنے سالوں سے ڈیتھ گرانٹ ریلیز نہیں ہوئی؟ چار سال سے پیسے ادا نہیں ہوئے، اسکولوں کی فیس اور اساتذہ کو تنخواہیں ادا نہیں ہو رہی، ڈیتھ گرانٹ کے لیے بھی پیسے جاری نہیں ہو رہے، کیا لوگ اپنی لاشیں لا کر سیکریٹریٹ میں رکھ دیں؟
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ آخر تمام مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت بتائے یہ پیسہ کس کا ہے؟ آپ کو امانت دی جائے آپ لوگ گدھ بن کربیٹھ جاتے ہیں، سیکریٹری اوورسیز! اتنی ٹال مٹول مناسب نہیں ہے۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ حکومت مسئلہ حل کرے، اگر حل نہ ہوا تو عدالت پیسہ اکاؤئنٹ سے نکلوالے گی۔
سیکریٹری خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومتیں ورکرز ویلفیئرفنڈ کا پیسہ دوسرے منصوبوں میں لگا دیتی ہیں۔
اس پر معزز جج نے کہا کہ آپ عدالت کو ان کے نام بند لفافے میں لکھ کردیں، ابھی نیب کوحکم دے کرانکوائری کروا لیتے ہیں، عدالت اپنا کام کرے گی تو باقی ادارے بھی اپنا اپنا کام کریں، ہم بیٹھے ہیں پیسہ کہیں نہیں جائے گا، اگر پیسہ کسی دوسرے پراجیکٹ میں گیا تو عدالت واپس منگوا لے گی، بہتر ہو گا اپنا کام خود کریں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی۔