اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کی گئی ایک اعلیٰ سطح کمیٹی نے پاکستان کے شعبہ تعلیم میں ’ناکافی سہولیات اور پیچیدہ نظام‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اقدامات اٹھانے اور ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز دے دی۔
رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اپریل میں ایک کمیٹی قائم کی تھی، جس کے سربراہ وفاقی محتسب سید طاہر شہباز کو بنایا گیا تھا، ان کے علاوہ عبدالرؤف چوہدری، یو اے جی عیسانی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد، وفاقی وزارت تعلیم کے جوائنٹ مشیر تعلیم رفیق طاہر اور دیگر بھی کمیٹی کا حصہ تھے۔
کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کو نافذ کرے، جس کے تحت ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے۔
اس حوالے سے کمیٹی نے متعدد اجلاسوں کے بعد پاکستان میں شعبہ تعلیم میں اصلاحات اور آرٹیکل 25 اے پر عمل درآمد سے متعلق حتمی رپورٹ میں ملک میں تعلیم ایمرجنسی کے نفاذ، اسکول سے باہر بچوں، تعلیم کا معیار، یونیفارم تعلیمی نظام اور اسکلز ڈویلپمنٹ جیسے ’متعدد چیلنجز‘ سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔
رپورٹ میں کمیٹی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ملک کو 5 سے 16 سال کی عمر کے ڈھائی کروڑ بچوں کے اسکول نہ جانے جیسے چیلنج کا سامنا ہے جبکہ اس تعداد میں ہر سال 20 لاکھ بچوں کا اضافہ ہورہا ہے۔
کمیٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’جہاں ہماری ناکامیاں واضح ہوں‘ وہاں آرٹیکل 25 اے، 37 بی اور 38 بی کی صورت میں ’آئین کی واضح شقیں‘ موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ترقیاتی اہداف اور پائیدار ترقی کے لیے ملک کا عزم ضروری ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’ یہ واضح ہے کہ موجودہ بدترین صورتحال میں فوری طور پر اضافی اقدامات کی ضرورت ہے‘۔
اعلیٰ سطح کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ آرٹیکل 25 اے کے موثر نفاذ کے لیے اس شعبے میں مالی اور انسانی وسائل پر ترجیح دینے کے لیے انتقلابی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اداروں کو بااختیار بنانا ہوتا ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی کہ تعلیم کے بجٹ میں اضافے کی ضرورت ہے اور اسے قومی سطح پر جی ڈی پی کے 2.2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کرنا چاہیئے جبکہ صوبوں کو کل بجٹ کا کم از کم 25 فیصد دینا چاہیئے۔
رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی عوامی شعبے میں نئے اسکولوں کی تعمیر میں ایک ’بڑی پیش رفت‘ کی جائے اور بڑی تعداد میں اساتذہ کی بھرتیاں اور انہیں تربیت دی جائے، اس کے علاوہ گھوسٹ اور غیر فعال اسکولوں کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نجی تعلیمی اداروں ملک میں 36 فیصد طلبہ کو خدمات فراہم کر رہے ہیں اور اسکول جانے والے بچوں کو تعلیم دینے میں انکا کردار ہے، تاہم حکومت کو ان اسکولوں کو فیسوں کے معاملے پر پابند کرنا چاہیے اور انہیں یہ ہدایت کرنی چاہیے کہ سماجی ذمہ داری کے تحت غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم 10 فیصد بچوں کو وہاں تعلیم دی جائے۔
کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی تجویز سامنے آئی کہ طلبہ کی تعداد میں اضافے کے ساتھ اسکولوں میں دو شفٹوں کو متعارف کروانا چاہیے جبکہ سرکاری اسکول بھی شام میں اس طرح کی سہولت فراہم کرسکتے ہیں، تاہم اس پر عمل درآمد کے لیے اضافی اساتذہ، اسٹاف اور بجٹ کی ضرورت ہوگی۔