خبرنامہ پاکستان

سینٹ: بچوں سے زیادتی پر7 برس قید، 7 لاکھ جرمانہ ہو گا، بل متفقہ منظور

اسلام آباد(اے پی پی )ایوان بالا میں فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2015 متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا جبکہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (ترمیمی) بل 2015 کو متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان کے نصاب میں آمریت کو جمہوریت پر فوقیت دی گئی ہے نصاب میں بچوں کو ڈکٹیٹر شپ کے فوائد پڑھائے جا رہے ہیں پنجاب میں بارہویں جماعت کی عمرانیات کی کتاب میں بلوچ قوم کو لڑنے والا چور اور ڈاکو پڑھانے کے معاملہ کا نوٹس لیتے ہوئے معاملہ فوری طور پر وزیر اعلی پنجاب کے نوٹس میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹر سید کبیر نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں بارہویں جماعت کی عمرانیات کی کتاب میں بلوچ عوام کو چور ڈاکو اور غیر مہذب پڑھایا جا رہا ہے یہ کتاب پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی جانب سے جاری ہوئی۔ بچوں کو اس طرح کی چیزیں پڑھا کر تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اس چیز کا نوٹس لیا جانا چاہئے۔ سینیٹر ثناء اللہ نے کہا کہ یہ پاکستان دشمن کی کارروائی ہے، چیئرمین سینٹ نے کہا کہ نصاب میں تبدیلی ضیاء الحق کے آرڈیننس کے تحت ہوئی، سینٹ نے ہدایت دی تھی کہ آئینی تاریخ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے موجودہ نصاب میں بھی بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کے 12 فائدے اور جمہوریت کے 8فائدے ہیں ایک پیرا کے اندر مشرقی پاکستان کی علیحدگی بیان کر دی گئی۔ آمریت کو جمہوریت پر ترجیح دینے کا سبق پڑھایا جا رہا ہے اس کے علاوہ ملٹری ٹیک اوور کرنے کا جواز بنایا جا رہا ہے۔ اس معاملہ پر وزیر اعلی پنجاب سے بات کروں گا آئندہ سیشن سے قبل اس لکھاری کے بارے میں کارروائی کے حوالے سے آگاہ کروں گا۔ دریں اثناء وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق زاہد حامد نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2015 منظور کرلیا گیا، بل کے تحت 10سال سے کم بچہ مجرم تصور نہیں کیا جائے گا، بل کے تحت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی سزا 7سال قید اور7لاکھ روپے جرمانہ ہو گی، قصور واقعہ کے بعد قانون سازی کے حوالے سے دبائو بڑھ گیا تھا، بل کی منظوری کے بعد پاکستان کی عالمی ذمہ داری پوری ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں بلڈنگ کوڈز پر عملدرآمد سے متعلق قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی رپورٹ سمیت 4 قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس ایوان میں پیش کر دی گئی۔ قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کی رپورٹ پیش کرنے میںتوسیع کی منظوری دیدی۔ وقفہ سوالات میں وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ نئے اسلام آباد ایئرپورٹ کے لئے 80 فیصد رابطہ سڑکیں تعمیر کرنا این ایچ اے کی ذمہ داری ہے‘ سی ڈی اے صرف اڑھائی کلو میٹرسڑک بنانے کا پابند ہے۔ تعلیمی اصلاحات کے منصوبے کے تحت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کے لئے 200 بسیں دی جارہی ہیں۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ تمام ہوائی اڈوں کے لئے پارکنگ ریٹس یکساں رکھنا ممکن نہیں۔ لائسنس فیس کو کنٹریکٹر کے سالانہ بنیادوں پر دس فیصد تک بڑھایا جاتا ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی کے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ ہر الیکشن میں ہارنے والوں کی طرف سے دھاندلی کا الزام لگانا ایک وطیرہ بن چکا ہے‘ ہمیں اب اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا‘ الیکشن کمشن میں تبادلے معمول کا حصہ ہیں‘ الیکشن کمشن نے کسی کا دانستہ تبادلہ نہیں کیا ادارے کے سربراہ کو اختیار ہوتا ہے اس نے ادارہ کس طرح چلانا ہے تبادلے نظام کا حصہ ہوتے ہیں اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ کسی سے زیادتی کا تاثر درست نہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے توجہ دلائو نوٹس پر کہا ہے کہ پولن کی وجہ سے انسانی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے‘ شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ پاکستان ایئرویز کے خودمختار یا ذیلی کمپنی کے طور پر کام کرنے سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کے سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ کمپنیز آرڈیننس 1984ء کے تحت سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ کرائی جاچکی ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ دو فضائی کمپنیاں ملک میں کام کریں۔ وزارت ماحولیات کی طرف سے سینٹ کو بتایا گیاکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر قائم ادارے ماحول کے تحفظ کے لئے گندے پانی کا دریائوں میں اخراج کا نوٹس لیتے ہیں اور اس حوالے سے کیسز ماحولیاتی ٹربیونلز کو بھجوائے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی ٹربیونل تمام صوبوں اور وفاقی دارلحکومت میں کام کر رہے ہیں۔ کشمیر اور کراچی میں دو مشترکہ ٹریٹمنٹ پلانٹس بھی قائم ہیں۔ تمباکو پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایوان بالا کی ایک سالہ کارکردگی ایوان میں پیش کر دی گئی۔ رپورٹ میں ارکان کی طرف سے پیش کی جانے والی تحاریک التوا، تحاریک استحقاق، توجہ دلائو نوٹسز، نکتہ ہائے اعتراضات، قانون سازی، وزراء کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹس، قاعدہ 218 کے تحت کی جانے والی بحث، سینٹ کے اجلاسوں، قراردادوں، رول 60 کے تحت تحاریک، رول 265 اے کے تحت وزارتوں کی رپورٹس،زیروآور، قائمہ کمیٹیوں کے کام، کمیٹی آف دی ہول کے اجلاسوں، پالیسی تحقیق کے لئے سینٹ فورم، پبلک پٹیشنز، بین الپارلیمانی تعلقات، پارلیمانی تعلیم پروگرام، سینٹ انٹرن شپ پروگرام، گیسٹس آف پارلیمنٹ، لائیوویب کاسٹنگ، سینٹ کی نئی ویب سائٹ، ایوان کی تحقیق سے متعلق رپورٹ، ای پارلیمنٹ، لائبریری، خدمات، ٹیکنیکل سپورٹ، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، ٹرانسلیشن کی سہولیات، شفافیت، کمیٹیوں کے متعلق دیگر تفصیلات شامل ہیں۔