خبرنامہ پاکستان

سینیٹ ، فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی آئینی ترمیم آئین اور انتخابی منشور سے انحراف قرار

اسلام آباد (ملت + آئی این پی) حکومتی اتحادی اور قوم پرست جماعتوں نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی آئینی ترمیم کو سینٹ میں آئین اور سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور سے انحراف قرار دے دیا‘ عسکری اداروں کو ایسے اختیارات دینے سے کیا پارلیمنٹ میں پھر فوج کو بھی نمائنددگی دینی پڑے گی‘ ترمیم کی حمایت کرنے والی جماعتوں کے دامن پر سیاسی تاریخ میں داغ لگیں گے۔ ان خیالات کا اظہار حکومتی اتحادی جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما سینیٹر مولانا عطاء الرحمن‘ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما جہانزیب جمالدینی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے بدھ کو ترامیم پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔ سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود ہم اس آئینی ترمیم و ایکٹ کی مخالفت کررہے ہیں اس کی وجہ ہے سارے ارکان کے دلوں میں بھی یہی ہوگا اس قسم کی ترمیم اور ایکٹ منظور نہیں ہونا چاہئے اس معاملے سے وہ جانتے ہیں کہ ان کا سیاسی مستقبل وابستہ ہے پہلے بھی ارکان نے ساتھ دینے کے لئے مجبوری کو جواز کے طور پر پیش کیا۔ دہشت گردی میں فرق نہ کئے جانے داڑھی پگڑی والا یا سوٹ ٹائی پہن کر کوئی دہشت گردی کرتا ہے تو اس کا ٹرائل ہونا چاہئے کوئی مدرسہ کالج یونیورسٹی جس سے دہشت گرد کا تعلق ہو سب کو بلا امتیاز پکرا جائے۔ افغانستان کے جہاد میں جن لوگوں کو بھجوایا گیا ان کو بعد میں دہشت گرد قرار دیا گیا تربیت دینے والے استاد پاکیزہ ہوگئے ان سے کیوں نہ پوچھا گیا۔ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ارکان اپنے ضمیر کو بیدار کریں سب کا ضمیر ملامت کررہا ہوگا مذہب میرے باپ کا نہیں ہے ہم سب مسلمان ہیں اگر ایک بار پھر مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ملک میں انارکی کی صورتحال پیدا ہو تو اس کا ذمہ دار پارلیمنٹ بھی ہوگی اور اراکین سینٹ اپنے ضمیر اور دل کی آواز کو سنیں۔ ترامیم کو مذہب سے کیوں منسلک کیا جارہا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے رہنما سینیٹر جہانزیب جمالدین نے کہا کہ ہم جمہوری اداروں کے استحکام کے حامی ہیں اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں سیاسی جماعتوں کو اس قسم کے بلز کی حمایت نہیں کرنی چاہئے جس سے جمہوری اداروں پر حرف آئے۔ افغان جہاد میں بعض مذہبی جماعتوں نے پیسے بنائے جمہوری سسٹم کو مضبوط ہونا چاہئے آمرانہ فلسفہ و فکر کی ان ترامیم سے بو آرہی ہ ے ان کی حمایت نہیں کرسکتے۔ اپنے اداروں کو اس قسم کے اختیارات دینے کے ہم مستقبل میں جواب دہ ہونگے۔ ملک میں ماورا قانون اقدامات کرکے لوگوں کو ایسے نشانہ بنایا گیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ انصاف کے کٹہرے میں لوگوں کو پیش کرکے ان کا گناہ ثابت کریں ایسی ترامیم سے ساری عمر فوج کا سہارا لینا پڑے گا۔ کیا ہم جمہوریت کو فروغ دے سکیں سیاسی تاریخ میں ان ترامیم کی منطوری پر سیاسی جماعتوں کے دامن پر داغ ہوگا حقیقی معنوں میں دہشت گردی کو ختم کرنے میں درپردہ ان لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی جو دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کی مالی معاونت کی جاتی ہے اگر ہم نظام کو بہتر نہ کرسکے تو ساری عمر فوج پر انحصار کرتے رہیں اختیارات جمہوری اداروں کے پاس رہنے چاہئیں۔ سابقہ ترمیم میں چیئرمین سینٹ کے آنسو نکلے تھے مجبوری بتائی اس قسم کی ترمیم پارلیمنٹ کے شایان شان نہیں ہے مستقبل میں جمہوریت سیاسی جماعتوں کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے ہمیں فوج کی قدر ہے مگر فیصلے پارلیمنٹ کو کرنے چاہئیں سول سکیورٹی اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ یہاں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں کیلئے پٹرول بھی نہیں ہوتا۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے چیئرمین سینٹ کی طرف سے اس ترمیم کی برملا مخالفت پر مبارکباد دی ہم نے لوگوں کو تربیت دی نائن الیون کے بعد ان کو فاٹا میں بسایا گیا جس کے گواہ ساری سیاسی جماعتیں جنرل (ر) پرویز مشرف گواہ ہیں چالیس لاکھ لوگ بے گھر ہیں پچاس ہزار افراد شہید ہوئے بارہ سو عمائدین مارے گئے صرف ہماری جماعت کے سو کارکنان شہید ہوئے فوجی عدالتیں مسئلے کا حل نہیں ہیں اقتدار مراعات اور کرپشن کی خاطر ہم پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی پر سمجھوتہ کررہے ہیں اس کو ملکی مفاد کا نام دیا جارہا ہے جب کہ یہ ملکی مفاد کے خلاف ہے حکومت نے خارجہ داخلہ پالیسی کو سٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا ہے۔ اب عدلیہ بھی سٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا گیا سارے اداروں کو پارلیمنٹ کے تابع کردیں عدلیہ کو تحفظ اور اچھی بری دہشت گردی کی سوچ ختم کردیں ملک سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی ہم اگر مطالبہ کریں کہ پانامہ سوئٹزر لینڈ کے معاملات فوجی عدالتوں کے سپرد کردیں کوئی سیاسی جماعت ایسی ترمیم نہیں لائے گی پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے کے معاملے پر سمجھوتہ کیا ڈان لیکس پر سمجھوتہ کیا حکومت مسلسل سمجھوتے کررہی ہے کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں فوجی عدالتیں نہیں ہیں سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور آئین سے انحراف کررہی ہیں عوام کو جواب دہ ہونگے ان ترامیم سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ہم ان وک رد کرتے ہیں تاریخ میں ان ترامیم کے حامی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونگے۔ معمول کی کارروائی میں کورم نہیں ہوتا فوجی عدالتوں کے لئے دو تہائی اکثریت اکٹھی کررہے ہیں پھر فوج کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینی پڑے گی آج سیاہ ترین دن ہے۔ (ن ع/ ا ع)