اسلام آباد: توانائی کے شعبے کا خسارہ 8 سو 24 ارب سے تجاوز کرنے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں سینیٹ کمیٹی کے ارکان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں 400 ارب روپے تک شامل کرے تاکہ گردشی قرضوں کے مسئلے کو کم اور پاور پلانٹس کی بندش سے بچا جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز کی قیادت میں گردشی قرضے سے متعلق سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس طرح کے بحران سے نمٹنے کے لیے مختصر مدتی اقدامات کا ذکر کیا۔
اس رپورٹ میں سخت اقدامات جیسے ریگیسیفائڈ لیکیوئڈ نیچرل گیس (آرایل این سی) کی بنیاد پر پاور منصوبوں کو ایندھن کی فراہمی کے معاہدوں کا جائزہ لینے کی تجویز دی گئی تاکہ انہیں ’ ضروری ادائیگیوں‘ کے بجائے عام پلان پر لایا جاسکے، جس کے تحت بجلی کی پیداورا نہ کرنے کی صورت میں بھی انہیں معاوضے کی ادائیگی کی جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق دو اہم ریگولیٹرز آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) کے کردار کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور اگر ضرورت ہو تو انہیں ضم کردینا چاہیے۔
اس رپورٹ کی کچھ تجاویز پہلے سے معلوم تھیں، جن میں درآمدی ایندھن پر انحصار کو کم کرنا اور ہائیڈروپاور اور دیگر قابل تجدید ذرائع کے مقامی وسائل کو بڑھانا کیونکہ بجلی کی 63 فیصد پیداوار فوسل ایندھن اور 55 فیصد درآمدی ایندھن سے ہوتی ہے۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ پاور کمپنیوں کی نجکاری، بجلی کی فراہمی میں نجی شعبے کی حصہ داری اور تقسیم کار کمپنیوں کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کیا جائے۔
اس کے علاوہ یہ بھی تجویز دی گئی کہ قابل تجدید توانائی پالیسی 2006 کو نافذ کرنے کے لیے اس میں 2 سال کے لیے توسیع کی جائے کیونکہ دسمبر 2017 میں اس کے اچانک رکنے سے اس شعبے میں سرمایہ کاری رک گئی ہے۔
کمیٹی کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی جانب سے نیپراایکٹ میں کی گئی ترامیم کو واپس لینے کا بھی کہا گیا کیونکہ انہوں نے ریگولیٹر کے چاراراکین کے اختیارات کم کرنے اور چیئرمین کو ایک ربڑ اسٹیمپ بنا کر ریگولیٹر کے آزادانہ اور پیشہ وارانہ کام پر سمجھوتا کیا تھا۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ کاروبار میں اس وقت منافع نا مکمل ہے جب پیداوار کا 25 فیصد ضائع ہوجائے اور اس عمل کو پاور سیکٹر میں تکنیکی اور تجارتی نقصان کے طور پر جانا جاتا ہے۔
رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا کہ پاور سیکٹر میں ( ٹرانسمیشن اور تقسیم) کے نظام میں نقصان اس 18.3 فیصد پر کھڑے ہیں جبکہ 8 سے 10 فیصد بل کی ادائیگیاں اب تک قابل وصول نہیں ہیں، جس کے نتیجے میں 295 ارب روپے کا فرق ہے جسے صارفین سے وصول کیا جاسکتا ہے یا حکومت ٹیکس دہندگان کی رقم کے ذریعے فنڈ دیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ 175 ارب روپے کا ایک بڑا حصے کو ماہانہ بلوں میں صارفین کو دوبارہ چارج کیا جاتا ہے تاہم اس کے باوجود تقریباً 120 ارب روپے سالانہ کا حکومت کو نقصان ہوتا ہے جسے گردشی قرضوں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جون 2018 میں ختم ہونے والے مالی سال میں کل گردشی قرضے 15 کھرب 57 ارب تک تھا، جس میں حکومت اور متعلقہ اداروں سے وصول کیے گئے 2سو45 ارب، جاری خسارے کی مد میں 500 ارب، 187 ارب روپے پانچ سال میں نظام میں خرابی، 338 ارب روپے ٹیرف میں تاخیر اور 300 ارب روپے ٹیکس ریفنڈ اور بلوں کی اقساط کی مد میں شامل ہیں۔