اسلام آباد:(ملت آن لائن) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ ہائیکورٹ کا سزا معطلی کا فیصلہ کالعدم کردیں۔
شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف سماعت کے دوران نیب کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے آئینی درخواستوں کو سنتے وقت مقدمے کے حقائق پر بات کی، مخصوص مقدمات میں عدالتیں مقدمے کے حقائق پر بات کرسکتی ہیں۔
نیب کے وکیل نے کہا کہ کسی ملزم کی زندگی خطرے میں ہو یا اپیل عرصے تک مقرر نہ ہو تو حقائق پر بات ہوسکتی ہے، ایسے مقدمات کو مخصوص مقدمات ( ہارڈشپ) کہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ پہلے بھی یہ دلائل دے چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ضمانت کے مقدمات میں عام حالات کی مثالیں موجود ہیں، عدالت عام مقدمات میں حقائق کا جائزہ نہیں لیتی، یہ خاص مقدمہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ہائیکورٹ نے تمام حقائق کا جائزہ لیا، شاید یہ میری دانست میں پہلا مقدمہ ہے جس میں ہائیکورٹ نے تمام حقائق پر بات کردی۔
چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہم خواجہ حارث صاحب کو سن لیتے ہیں جن کا کہنا تھا کہ کامیاب اینجوپلاسٹی پرمبارکباد پیش کرتا ہوں، آپ کو آرام کرلینا چاہیے تھا مقدمے کی سماعت کسی اور دن کے لیے مقرر کردیں۔
چیف جسٹس نے کہا یہ مقدمہ ایک فرد کا نہیں بلکہ عدالتی نظام میں بہتری کا معاملہ ہے، اس لئے آیا ہوں، یہ قانون کی تشریح کا معاملہ ہے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ صرف 12 صفحات پر مشتمل ہے اور ہائی کورٹ نے باقی فریقین کی گزارشات لکھی ہیں۔
نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سب سے پہلے بینکنگ قانون کے تحت ضمانت ختم کی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کیس میں اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں، سزا معطلی رٹ پٹیشن پر فیصلہ کردیا گیا، نیب نے یہ چیز چیلنج کی؟۔
چیف جسٹس نے کہا ہم نے صرف رحم دلی کے تحت نیب کی درخواست مسترد کی تھی، سپریم کورٹ نے تو بڑی مہربانی کی ہے، ہائی کورٹ ضمانت کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے کیسے کہہ سکتی ہے کہ شواہد میں نقائص ہیں، ہم کیوں نہ یہ فیصلہ کالعدم کردیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی ایک ایسا فیصلہ بتا دیں جو اس طرح کا ہو، ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کرنے کے کوئی آپشن نہیں، نواز شریف کے خلاف مقدمہ تو ماتحت عدالت میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، اس معاملے کو تو سپریم کورٹ کو ہی طے کر دینا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو کہا ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے تھے یا نہیں یہ تو آپ کے مؤکل نے ثابت کرنا تھا، آپ مقدمے کے حکم کے وہ نکات بتائیں جن پر اعتراض ہے۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کیس میں کہا گیا کہ ایون فیلڈ کی جائیداد میری ہے جو میرے معلوم ذرائع آمدن سے زائد ہے، فیصلے میں نہ تو میرے ذرائع آمدن کی تفصیل ہے اور نہ ہی جائیداد کی مالیت بتائی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ بات نہیں ہے ، ذرائع آمدن تو آپ نے بتانے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا اثاثے بنے کیسے کہیں سے اڑ کر تو نہیں آگئے تھے، کہیں سے من و سلوی تو نہیں اتر آیا، پیسے درختوں پر تو نہیں اگتے، قطری خط سمیت اثاثوں کی کئی کہانیاں سنائی گئیں، اصول قانون میں ملزم نے ثابت کرنا تھا کہ اثاثے کس کے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا یہ نواز شریف کے بڑے بیٹے کے اثاثے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کیس میں آپ کے 4 مؤقف آئے ہیں، تو آپ نے ثابت کرنا تھا کہ کن ذرائع سے جائیداد بنائی، خواجہ حارث نے کہا سر ایسا نہیں ہے، یہ قانون نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا قانون وہ ہو گا جو ہم طے کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا یہ نہ ٹرائل کورٹ ہے نہ ہائیکورٹ، یہ سپریم کورٹ ہے، خواجہ حارث نے کہا میں عدالت کو آپ کی ججمنٹس بتاتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے اسفتسار کیا ‘کیا یہ میری ذاتی ججمنٹس ہیں، ججمنٹس سپریم کورٹ کی ہوتی ہیں کسی کی ذاتی نہیں، آپ اس معاملے پر زیادہ دلائل دینا چاہتے ہیں تو کوئی اور دن رکھ لیتے ہیں’۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا سزا معطلی کے لیے عدالتی فیصلوں میں کہاں لکھا ہے کہ فشنگ کریں، آپ کے خیال میں احتساب عدالت کے فیصلے میں کیا نقائص ہیں۔
نواز شریف کے وکیل نے کہا آمدن سے زائد اثاثوں کی فرد جرم عائد کی گئی۔
عدالت نے فریقین وکلا کے دلائل سننے کے بعد شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت 12 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
نیب نے 22 اکتوبر کو دائر کی گئی اپنی اپیل میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی سزائیں معطل کرنے کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کی جائیں۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 11، مریم کو 8 اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
تینوں ملزمان اڈیالہ جیل میں قید رہے جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے 19 ستمبر کو احتساب عدالت کی جانب سے تینوں افراد کو دی گئی سزا معطل کی تھی جس کے خلاف نیب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔