خبرنامہ پاکستان

شہید محترمہ بینظیربھٹوکی 63 ویں سالگرہ آج منائی جا رہی ہے

لاڑکانہ: (اےپی پی) سابق وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی 63 ویں سالگرہ آج منائی جا رہی ہے ۔ گڑھی خدا بخش بھٹو میں شہید بینظیر بھٹو کی مزار پر سالگرہ کی تقریبات کا آغاز قرآن خوانی سے کیا گیا ۔ قرآن خوانی کی تقریب میں میں کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، قرآن خوانی کے بعد شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے مزار پر حاضری دی، پھول نچھاور کیے اور خراج عقیدت پیش کیا ۔ مزار پر حاضری کا سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ شام 5 بجے نوڈیرو ہاؤس میں سالگرہ کی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی بیٹیاں بختاور بھٹو زرداری ، آصفہ بھٹو زرداری ، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور دیگر پارٹی رہنما شرکت کریں گے جبکہ افطار کے وقت سالگرہ کا کیک کاٹا جائے گا ۔ بے نظیر اپنے نام کی طرح بے نظیر تھیں ، انہیں عوام کے دلوں میں بسنے کا فن آتا تھا ، وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں تقریر کرتی تھیں اور لوگ جلسوں میں ان کی ایک جھلک دیکھنے کو دیوانہ وار دوڑے آتے تھے ۔ بے نظیر بھٹو ملکی سیاسی تاریخ کی ایسی بے مثال لیڈر تھیں وہ اکیس جون 1953 کو ذوالفقار علی بھٹو کے ہاں پیدا ہوئیں ، ابتدائی تعلیم کراچی ، راولپنڈی اور مری میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم پہلے ہاورڈ اور پھر آکسفورڈ سے حاصل کی ، بے نظیر جب کبھی پاکستان ہوتی تو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں شامل رہتی ۔ سب کچھ ٹھیک تھا مگر زندگی ایک خوشگوار خواب سے کانٹوں کا بستر بن گئی ، آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے 1977 میں مارشل لاء نافذ کیا اور بھٹو گرفتار ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ۔ 1985 میں بے نظیر کے بھائی شاہنواز بھٹو فرانس میں ایک پراسرار موت کا شکار ہوئے ۔ یہ دور بے نظیر بھٹو کی زندگی کا بدترین دور تھا ۔ آخر کار 10 مارچ 1986 کو بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں ، 18 دسمبر 1987 کو بے نظیر کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی ۔ اگست 1988 میں ضیاء الحق کی طیارے میں حادثے میں موت کے بعد نومبر کے مہینے میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا ۔ پیپلز پارٹی انتخابات جیت گئی اور بے نظیر بھٹو پاکستان کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن 20 ماہ کے بعد ان کی حکومت کو کرپشن کے الزامات لگا کر تحلیل کردیا گیا ۔ 1993 میں جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو بے نظیر ایک مرتبہ پھر فاتح تھی ، 1996 میں بے نظیر کے دوسرے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل نے ان کی حکومت کو کمزور تر کردیا ، اس حکومت کا انجام بھی وہی ہوا ،1998 میں نواز شریف دور کے دوران بے نظیر دبئی جا کر مقیم ہوگئیں ۔ پھر آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے اور نواز شریف کی جلاوطنی جیسے واقعات پیش آئے ۔ 2007 میں مشرف سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کرنے کی غلطی سرزد ہوئی ، یہ حالات جلا وطن سیاسی قیادت کے لئے واپسی کا دروازہ ثابت ہوئے ، بے نظیر بھٹو بظاہر ایک شراکت اقتدار کی ڈیل کے نتیجے میں 18 اکتوبر 2007 کو کراچی آئیں تو لاکھوں جیالے ان کے استقبال کے لئے کراچی میں موجود تھے ، ان کی استقبالی ریلی میں پے در پے دھماکوں نے بے نظیرکی جان کو لاحق خطرات کا خدشہ درست ثابت کیا ، تین نومبر کو نافذ کی گئی ایمرجنسی اٹھانے ، وردی اتارنے اور انتخابات کرانے کا اعلان اس بات کا اشارہ تھے کہ بے نظیر کو دیگر سیاسی قوتوں پر برتری حاصل ہے ۔ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کرنے آئیں تو واپسی پر بیک وقت دھماکے اور گولیوں کی گونج نے منظر نامہ تبدیل کردیا ۔ بے نظیر ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی تھیں ۔