خبرنامہ پاکستان

صحت مند وزیر اعظم کودر پیش چیلینجز۔۔اسداللہ غالب

وزیر اعظم علاج سے مطمئن ہونے کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں، ان کی صحت کے لئے ان لوگوں نے بھی دعائیں کیں جن کے لئے وزیر اعظم نے کبھی دعائے خیر نہیں کی ہو گی۔
مگر لاہور ایئر پورٹ پر اترتے ہی انہوں نے دھرنے سے اجتناب برتنے کی ہدائت کی، یہ ایسا بوجھ ہے جو ان کے دل سے ہنوز نہیں اترا۔حالانکہ دھرنے کاشوقین اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے اور کرکٹ انجوائے کرنے کے لئے وہاں چلا گیا ہے جہاں سے وزیر اعظم واپس آئے ہیں۔ویسے وہ واپس آ بھی جائے اور دھرنا دے بھی دے تو کیا بگاڑ لے گا،اس وقت کچھ نہ بگاڑ سکا جب ہر لمحے ا س کی نظر امپائر کی انگلی کی طرف تھی، چودھری نثار پر اعتبار کیا جائے تو وہ امپائر ریٹائر ہو چکاا ور اب شاید کوئی سیکورٹی ایجنسی کھڑی کر چکا ہے۔اور نجی سیکورٹی ایجنسیوں کے بل بوتے پر کسی حکومت کا تختہ نہیں الٹا یاجاسکتا۔ مگر عمران فیکٹر وزیر اعظم کے لئے پریشانی کا باعث ضرور ہے۔ اور یہ پریشانی لاہور ایئر پورٹ پر اترتے ہی ان کی گفتگوسے عیاں ہو گئی ہے۔
میرا نہیں خیال کہ عمران کوئی بڑا تیر مارسکے، سوائے سڑکوں کو بند کر کے عوام کی پریشانی کا باعث بنے۔اس کام میں اس کی مہارت مسلمہ امر ہے ، وہ کئی ماہ تک سڑکیں بلاک کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس نیک کام میں کینیڈا کے مولوی صاحب بھی اسکی مدد کریں گے، وہ وطن آئے ہیں تو کوئی گل کھلانے کے لئے ہی تو آئے ہیں۔چندہ اکٹھا کرنابھی ایک بڑا مقصد تھا اور یہ مقصد رمضان کے با بر کت لمحات میں پورا کر لیا گیا، باقی رہا شوق سڑکوں کی بندش تو وہ عمران کے ساتھ یا اس سے الگ کنٹینر کھڑے کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔
میرا یہ خیال بھی نہیں کہ بلاول کی پیپلز پارٹی کوئی بڑ ا یابراخطرہ بن سکے،اسے تو فرینڈ لی اپوزیشن کا کردار سونپا گیا تھا، یہ کردار لندن میں کیا جانے والا میثاق جمہوریت تفویض کرتا ہے۔ زرداری کی حکومت کے دوران مسلم لیگ ن نے یہ کردار بہ طریق احسن ادا کیا، اب پیپلز پارٹی کو اچھا بچہ بن کے دکھانا ہے اور اسے کیا پڑی ہے کہ بیٹھے بٹھائے بری بنے۔ البتہ تند و تیز بیانات سے دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
عوام کے مسائل وزیر اعظم کے لئے اصل چیلنج ہیں ، ان میں سب سے بڑا طعنہ یہ ہے کہ پورے ملک میں کوئی ایک ہسپتال ایسا نہیں، ان میں وزیر اعظم کے خاندان کے اپنے دو ہسپتال بھی شامل ہیں، جہاں وزیر اعظم کا علاج ہو سکتا۔اس طعنے کو دور کرنے میں وزیر اعظم مصروف ہو گئے تو اورنج ٹرین اور پاک چین کوریڈرو کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔اس لئے ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم لوگوں کے طعن و تشنیع کو پر کاہ کے برابر اہمیت نہ دیں۔اور یہی بہتر راستہ ہے۔خزانے میں محدود پیسہ ہے اور یہ کسی ایک منصوبے کے کام آسکتا ہے، سبھی منصوبوں کی تو اس سے ایک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ ملک کا سارا پیسہ تو آف شور کمپنیوں کی نذر ہو چکا یا سوئس اکاؤنٹوں میں مخفی پڑا ہے، بچا کھچا پیسہ دوبئی کی پراپرٹی میں لگ چکا ہے ،ا سلئے بہتر یہ ہے کہ وزیر اعظم ہسپتالوں، اسکولوں، سڑکوں، گلیوں وغیرہ کی بہتری کی طرف دھیان نہ ہی دیں۔
مگر کچھ مسائل اسیے ہیں جن سے مفر ممکن نہیں۔ امریکہ ڈو مور کاپرانا مطالبہ دہرائے چلے جا رہا ہے ، اگر ہم امریکہ ا ور عالمی مالیاتی اداروں سے متمتع ہو رہے ہیں تو پھر ڈو مور کے مطالبے کی طرف دھیان دینا ہی پڑے گا، چاہے فوج کی رائے اس بارے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔امریکہ مائی باپ کی حیثیت رکھتا ہے،ا س سے انکار کی مجال کسے ہے۔
وزیراعظم نے طویل عرصہ ملک سے باہر گزارا، جس کاایک فائدہ تو ان کی صحت کو پہنچا ، دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ پانامہ لیکس کا شور کم از کم دنیا کی حد تک دب گیا ہے، اور پاکستان میں اگر کوئی شورمچانے کی کوشش کر بھی رہا ہے تووہ آسمان سر پہ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا، عام لوگوں کو پانامہ سے کوئی غرض نہیں۔ البتہ کرپشن سے لوگ نکو نک آ چکے ہیں اور عدلیہ بھی اس کے خلاف لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکی ہے، وزیر اعظم کو احتسابی اداروں کو فعال بنانا ہو گا۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں بھیجنا ہو گا اور ملک سے فرار کے راستے بند کرناہوں گے۔ جو باہر بھاگ گئے، انہیں ہتھکڑیوں میں جکڑ کا واپس لانا ہو گا۔
دہشت گردی کی جنگ کے چودہ برس گزر چکے اور یہ مسئلہ ہنوز ٹیڑھی کھیر بنا ہو اہے، اور باقی دنیا بھی ا س کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔سعودی عرب کے شہروں خاص طور پر مدینہ شریف میں دھماکے کی کوشش نے نئے خطرات کوجنم دیا ہے، پاکستان نے سعودی سیکورٹی کے لئے ابھی تک کچھ نہیں کیا لیکن اگر مکہ ا ور مدینہ کو بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں تو پاکستان کے مذہبی طبقوں میں بے چینی پھیل سکتی ہے، اس کی پیش بندی کے لئے حکومت کو تیز رفتار فیصلے کرنا ہوں گے، لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر چینیوں کی سڑک کی سیکورٹی کے لئے ایک ڈویژن فوج کھڑی کی جا سکتی ہے تو حرمین شریفین کی سیکورٹی کے لئے ایک ڈویژن فوج کیوں نہیں بھیجی جا سکتی ، خاص طور پر جب حج کا سیزن بھی شروع ہونے والا ہے۔
ملک کے کسان کی حالت ابتر ہے، مزدور بد حال ہیں ا ور تنخواہ یافتہ طبقہ بری طرح پس رہا ہے، مہنگائی نے عام آدمی کا کچومر نکال کر رکھ دیاہے ۔ امیر پہلے سے امیر تر اور غریب پہلے سے غریب تر ہو رہ ہے، یہ محاورہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اور اس سے وزیر اعظم آ نکھیں نہیں چرا سکتے۔
طبی لحاظ سے وزیر اعظم اب ایک تازہ دم، طاقتور، اور نئے نویلے دل سے بہرہ مند ہو چکے ہیں۔وہ ایک بیمار، مضمحل پژ مردہ دل کے ہوتے ہوئے بھی مضبوط اعصاب کے مالک تھے، اب تو ان کی چوکسی اور پھرتی دیکھنے کے لائق ہو گی۔ اس نئی طاقت کو وزیر اعظم ،ملک اور عوام کی بہتری کے لئے استعمال کریں تو نہ صرف بقایا ٹرم میں انہیں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں گی بلکہ اگلے الیکشن میں بھی وہ کلین سویپ کر سکیں گے۔