خبرنامہ پاکستان

صدرمملکت کا بین الاقوامی سیرت النبیؐ کانفرنس سے خطاب

صدرمملکت کا بین الاقوامی سیرت النبیؐ کانفرنس سے خطاب
اسلام آباد؛(ملت آن لائن)صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ بے شمار درود و سلام ہوں نبی آخرالزماں حضرت محمد ؐپر اور شکر ہے اس ذات باری تعالیٰ کا جس نے اپنے لطف و کرم سے ہمیں حضورؐ کا اُمتی بنا کر ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کا ذریعہ فراہم کیا۔حضورؐ کی ولادت کا دن مبارک ہے اور اس کی برکت سے ان کی لافانی تعلیمات کا علم حاصل کر کے ان پر سچے دل سے عمل کا عہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہفتہ کو یہاں کنونشن سینٹر میں بین الاقوامی سیرت النبیؐ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع ’’ اسلامی ریاست میں قومی قیادت کے رہنما اصول تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں ‘‘ تھا ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ جب اہل وطن نبی رحمتؐ کی ولادت باسعادت کا جشن منا رہے تھے اور ان کے بتائے ہوئے پاکیزہ طریقوں پر چلنے کا عہد دہرا رہے تھے تو بد بختوں نے پشاور میں معصوم لوگوں کو خون میں نہلا دیا،حضورؐ کی تعلیمات پر یقین رکھنے والے ہرگز ایسا نہیں کر سکتے۔ صدر ممنون حسین نے سانحہ پشاور کی سختی سے مذمت کی اوراس تکلیف دہ واقعے کے متاثرین اور انکے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ قوم دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے پرعزم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسندی ایساناسور ہے جو ملکی استحکام کیلئے خطرہ ہے لہذااس سے نمٹنے کیلئے قوم کا یکجا ہونا ضروری ہے ۔انہوں نے کہاکہ کچھ عرصہ قبل انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی میں علماء نے انتہا پسندی اور تشدد کے حوالے سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا جو درست سمت میں اچھی کوشش ہے ۔ انہوں نے کہ ہم سب کو ملک بیٹھ کر دہشتگردی کے خلاف قومی بیانیہ تشکیل دینا چاہئے۔ صدر ممنون حسین نے بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں شرکت کیلئے آنے والے اہل علم اور انعامات حاصل کرنے والوں کا خیرمقدم کیا اور انہیں مبارک باد دی ۔ انہوں نے کہا کہ نبی رحمتؐ تاریخ عالم کی وہ واحد شخصیت ہیں جنکی زندگی کا ہر واقعہ درست حالت میں محفوظ ہے جس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ سیرت النبیؐ کا اعجاز ہے کہ اس سے ہر فرد انفرادی اور معاشرہ اجتماعی طور پر بہتر طور پر رہنمائی حاصل کرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کا ہر ایک لفظ جس طرح لوح محفوظ اور قلب انسانی میں محفوظ ہے اسی طرح سیرت النبیؐ بھی محفوظ ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیرت النبیؐ کی روشنی میں قیادت کا معیار مشکل سوال نہیں ، اس حوالے سے سیرت النبیکی تمام کتابوں میں تفصیلی بحث موجود ہے ۔صدر نے کہا کہ حالات کے درست مشاہدے ، صورتحال کے تجزیے اور معاملات کے درست ادراک میں ہی مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا کو مختلف وسائل درپیش ہیں جن کی وجوہات بھی مختلف ہیں جس کے باعث کرہ ارض پر اختلافات موجود ہیں اور ہمارا خطہ بھی اس بے چینی سے محفوظ نہیں رہ سکا جس کے اثرات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسطرح کے حالات میں بالغ نظر قومیں اور قیادت مسائل کا علمی ، تہذیبی ، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لے کر راہ عمل کا تعین کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حضورؐ کی بعثت کے بعد اس وقت کا معاشرہ مسائل کا شکار تھا اور اس زمانے میں کمزور طبقات طاقتور طبقوں کے دباؤ کا شکار تھے ، ظلم و ستم عام تھا اور ان حالات میں جب حضورؐ نے دعوت دی تو عرب و عجم سے لوگ کھچے چلے آئے۔ انہوں نے کہا کہ آپؐ کی کوششوں سے لوگ آپؐ کے گرد جمع ہوئے اور وہ دیکھ رہے تھے کہ نبیؐ کی دعوت میں اخلاص اور محبت ، عہد کے داخلی و خارجی معاملات کی آگاہی اور مسائل کا حل بھی ہے ، اس کے علاوہ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مسائل کے خاتمہ کا نظام ذاتی ، گروہی اور نسلی مفادات سے پاک اور لوگوں کی بھلائی کیلئے ہے ۔ صدر مملکت نے کہا کہ آپؐ کی یہی خوبی آپؐ کو رحمت العاالمین کے منصب پر فائز کرتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حضورؐ کی بعثت کے بعد معاشرے سے لایعنی رسومات ختم ہوئیں اور لوگوں کو دین کی روح کے مطابق خیر خواہی کی راہ پر گامزن کیا گیا ،علم کا حصول لازم ہوا،ارتکاز دولت کی حوصلہ شکنی ہوئی اور معاشرے میں ایسی تبدیلی رونما ہوئی جس پر آج فخر کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسی معیار کواختیار کر کے دنیا بھر میں آج بھی امن ، ترقی اور خوشحالی میسر آسکتی ہے ۔ صدر مملکت نے کہا کہ سرور کائناتﷺ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ قلب و نظر کی پاکیزگی ، اپنے مقصد پر یقین اور جدوجہد آپؐ کی زندگی کے تین بنیادی اوصاف ہیں جن میں آج کے مسائل کا حل موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حضورؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف اللہ کی رضا کیلئے اس کے بندوں سے محبت اور خیر خواہی کا معاملہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اخلاص پر مبنی طرز عمل ہمارے لیے باعث برکت ہوگا اور معاشرہ جہالت سے نکل کر علم سے منور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سیرت سے سبق ملتا ہے کہ قیادت کی ذمہ داری وہ اٹھا سکتا ہے جس کادل علم کے نور سے مزین ہو اور پاکیزہ کر دار اور قوت عمل کا حامل ہو ۔ یہ حقیت ہے کہ اسلام ان خوبیوں کا تقاضا صرف اہل اقتدار سے ہی نہیں کرتا بلکہ ہر شخص جو دینی ، علمی اور تہذیبی میدان میں رہنما ہو اس پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ قیادت کا اصول ہے کہ معروضی حالات کے پیش نظر معاشرے کی ترقی اور خوشحالی ، معاشرے منفی جدوجہد کو ختم کرے اور اس جدوجہد میں جب معاشرہ کامیابی کی راہ پر گامزن ہو تو قوم کا ہر فرد مثبت طرز عمل اختیار کرے ۔ صدر ممنون حسین نے کہاکہ اللہ کے لطف و کرم سے امید ہے کہ نبی رحمتؐ کے طریقوں پر چل کر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد پر وزارت مذہبی امور و بین المذاہب و ہم آہنگی ، سیرت النبیﷺ کے مصنفین اور انعام حاصل کرنے والوں کو مبارک باد دی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی اور ہماری کاوشیں قبول فرمائے اور آقائے نامدارﷺ کے راستوں پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔