خبرنامہ پاکستان

عدالت نے حکومت کوایسا کام کرنے سے روک دیا

عدالت نے حکومت کوایسا کام کرنے سے روک دیا
پشاور:(ملت آن لائن) پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو رہائی نہ دینے کا حکم دیتے ہوئے ملزم کا کیس نمٹا دیا۔ پشاور کے ہائی کورٹ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی رہائی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے آنے ہونے والی سماعت میں فیصلہ دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت نے دلائل سننے کے بعد حکومت کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو معافی یا رہائی دینے سے روک دیا۔ اس موقع پر درخواست گزار نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے شہداء کے ذمہ دار کو معافی دیدی جائے گی۔ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ،ادارے ملزم سے تفتیش کر رہے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے دونوں جانب سے دلائل اور مؤقف دننے کے بعد حکومت کو احسان اللہ احسان کو رہائی نہ دینے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔واضح رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی ممکنہ رہائی روکنے کیلئے پشاور ہائی کورٹ میں متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ جس میں درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اس لیے اس کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں سنا جائے اور فوجی عدالت ہی سے سزا دی جائے۔رٹ دائر کرنے کا فیصلہ اسکول حملے میں شہید ہونے والے 25 بچوں کے والدین نے متفقہ طور پر کیا۔ایک درخواست اس واقعے میں شہید ہونے والے طالب علم صاحبزادہ عمر کے والد فضل خان ایڈووکیٹ نے جمع کرائی تھی۔ اس رٹ میں کہا گیا تھا کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ رٹ میں چیف آف آرمی اسٹاف، وفاقی سیکریٹری داخلہ، چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا، سیکریٹری دفاع، ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکریٹری قانون و انصاف کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس رٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزار کا بیٹا صاحبزادہ عمر آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا جسے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں شہید کیا گیا تھا۔ شہید بچوں کے والدین کی جانب سے اب تک تین سے زائد رٹیں پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی جا چکی ہیں، دو اب تک زیر التوا ہیں۔ ان میں جوڈیشل انکوائری کے لیے کہا گیا تھا اور دوسری پیٹیشن ایف آئی ار میں ترمیم کا کہا گیا تھا تاکہ ان افراد کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا جا سکے جن کی غفلت سے یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول حملے میں طلبہ اور اسٹاف سمیت 148 افراد شہید ہوئے تھے۔