خبرنامہ پاکستان

قانون کے مطابق گاڑیاں ضبط نہیں کی جا سکتیں

اسلام آباد: (ملت+آئی این پی) سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ پیش کرنیوالے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے دو سٹاف افیسرز کی پنجاب ہاؤس کی جانب جانے والی کالے شیشوں والی پولیس کی دو سرکاری گاڑیوں کو روکنے اورکالے شیشے استعمال کرنے کا واقعہ پیش �آیا ہے ،جسٹس قاضی فائز عیسی دونوں پولیس افسران کی گاڑیاں بند کرنے کا اسرار کرتے رہے تاہم سپریم کورٹ کے ایس پی سیکورٹی نے موقف اختیار کیا کہ قانون کے تحت گاڑیوں کو بند نہیں کیا جاسکتا ،صرف کالے شیشے استعمال کرنے پرچالان کیا جاسکتا ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ایس پی سیکیورٹی کو فوری طور پر طلب کرکے ٹریفک پولیس سے دونوں گاڑیوں کو جرمانے کے ٹکٹ جاری کروائے ، فاضل جج مذکورہ گاڑیوں کو ضبط کرنے کا اصرار کرتے رہے تاہم ایس پی احمد اقبال نے انہیں قائل کیا کہ قانون کے مطابق گاڑیاں ضبط نہیں کی جا سکتیں ۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز دوپہر بارہ بجے کے قریب پنجاب ہاؤس کی طرف جانے والی پولیس کی دو ڈبل ڈور پک اپ گاڑیوں کو پنجاب ہاؤس اور ججز کالونی کی داخلی پولیس چوکی پر روک لیا گیا اور باضابطہ شناخت کے بعد انہیں جانے کی اجازت دی گئی ۔ دونوں گاڑیاں اسلام آباد پولیس کے ایک ایس پی اور اے ایس پی کے زیر استعمال تھیں اور دونوں افسران اپنے سرکاری فرائض کے لئے جا رہے تھے ۔ دونوں افسران وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے سٹاف آفیسرز ہیں ۔ اسی دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کا اس پولیس چوکی سے گزر ہوا تو انہوں نے ان گاڑیوں کے شیشوں پر لگے کالے پیپر کا نوٹس لیتے ہوئے ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر نذر محمد کو گاڑیوں کا چالان کرنے کاحکم دیا اور سپریم کورٹ کے ایس پی سیکیورٹی کو اپنی رہائش گاہ پر طلب کیا ۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے ایس پی سیکیورٹی احمد اقبال چند منٹ بعد ججز کالونی پہنچے اور اسی دوران ٹریفک پولیس کو بھی طلب کرلیا گیا اور دونوں گاڑیوں کے چالان کر دیئے گئے ۔ ذرائع کے مطابق فاضل جج نے ایس پی احمد اقبال سے بات کرتے ہوئے ججز کالونی جیسے حساس علاقے میں کالے شیشے والی گاڑیوں کی موجودگی پر تحفظات کا اظہار کیا اور ایس پی کو یہ گاڑیاں ضبط کرنے اور شیشوں پر لگے کالے پیپراتارنے کے احکامات جاری کیے ۔ذرائع کے مطابق ایس پی احمد اقبال نے فاضل جج کو بتایا کہ قانون کے مطابق یہ گاڑیاں ضبط نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ پولیس کی سرکاری گاڑیاں ہیں اوران کا صرف چالان کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ ایس پی نے فاضل جج کو گاڑیوں کو کیے گئے جرمانے کے ٹکٹ سمیت گاڑیوں کے خلاف لیے گئے ایکشن سے متعلق رپورٹ پیش کی ۔ واقعے کی تمام تفصیلات سے سینئر پولیس حکام کو بھی تحریری طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔(م د +آچ)