خبرنامہ پاکستان

قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے پر جے آئی ٹی میں اتفاق نہیں ہوا تھا: واجد ضیاء

قطری شہزادے

قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے پر جے آئی ٹی میں اتفاق نہیں ہوا تھا: واجد ضیاء

اسلام آباد:(ملت آن لائن) شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کررہے ہیں اور اس دوران واجد ضیاء نے انکشاف کیا ہے کہ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے کے معاملے پرجے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔ سماعت کے سلسلے میں میاں نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے جنہیں تھوڑی دیر بعد ہی عدالت نے جانے کی اجازت دے دی۔ سماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے واجد ضیاء سے استفسار کیا، کہ کیا آپ متعلقہ ریکارڈ لائے ہیں؟اس پر واجد ضیاء نے جواب دیا جی لایا ہوں۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کا آغاز کرتے ہوئے واجد ضیاء سے قطری شہزادے سے خط وکتابت پرسوالات کیے۔
لندن فلیٹس: نواز شریف کے بینیفشل اونرہونے کی دستاویزات پیش نہیں کیں، واجد ضیا
واجد ضیاء نے بتایا کہ حمد بن جاسم کو 13 مئی 2017ء کو پہلا خط لکھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس خط میں آپ نے حمد بن جاسم کوجے آئی ٹی میٹنگ میں آنے کا کہا؟ خط میں حمد بن جاسم سے سپریم کورٹ کوپہلے لکھے گئے دوخطوط کی تصدیق کا بھی کہا۔ اس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جی، میں نے ایسا کیا لیکن اس خط میں مزید ریکارڈ اور اضافی دستاویزات جمع کرانے کا بھی کہا تھا۔ خواجہ حارث نے پوچھا کہ آپ نے حمد بن جاسم کے دونوں خطوط پڑھنے کے بعد متعلقہ ریکارڈ لانے کا کہا تھا؟ واجد ضیاء نے کہا کہ نہیں، میں نے صرف خطوط کی بنیاد پر نہیں، تمام اضافی دستاویزات لانے کا کہا تھا، متعلقہ اضافی دستاویزات صرف خطوط کی بنیاد پرنہیں مانگی تھیں، مثلاً ورک شیٹ اور ٹرانزیکشن کے سپورٹنگ دستاویزات بھی مانگیں۔ خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے پوچھا کہ مثلاً میں کیا کیا دستاویزات شامل ہیں؟ واجد ضیاء نے کہا کہ کوئی بھی بینکنگ ریکارڈ اور خط کا کوئی بھی معاہدہ، جوٹرانزیکشن کوسپورٹ کرے۔ نوازشریف کے وکیل نے پوچھا کہ کوئی اضافی دستاویزات آپ کے ذہن میں تھیں؟ واجد ضیاء نے کہا کہ نہیں، یہ خصوصی طور پر نہیں، میرا مطلب تمام متعلقہ ریکارڈ سے متعلق تھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں مطلب سے غرض نہیں براہ راست سوال کےجواب چاہئیں۔ اس دوران نیب کے پراسیکیوٹر سردار مظفر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کوجواب دینے دیا جائے، مکمل اور پورا جواب دینے دیں۔ واجد ضیاء نے بتایا کہ حمد بن جاسم کی جانب سے خط کا جواب 24 مئی 2017 کو آیا۔ خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کوئی شک وشبہ تونہیں کہ یہ خط حمد بن جاسم نے ہی لکھا، اس خط کی روسے حمد بن جاسم نے اپنے پہلے دونوں خطوط کی تصدیق بھی کی، حمد بن جاسم کے خطوط کے بعد اب انہیں آنے کی ضرورت نہیں، 24 مئی کو ہی آپ نے حمد بن جا سم کو ایک اور خط لکھا، اس خط میں میں پہلے لکھے گئے خطوط کی تصدیق کی۔ اس پر واجد ضیاء نے بتایاکہ جی میں نے خط لکھا تھا، اس خط میں گزشتہ خطوط کی تصدیق کی اورمتعلقہ دستاویزات لانے کا بھی کہا تھا۔
واجد ضیاء کا انکشاف
واجد ضیاء نے انکشاف کیا کہ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے کے معاملے پرجے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہ ہوسکا، یہ اہم معاملہ تھا، اتفاق نہ ہونے پرسپریم کورٹ کے پاناما عمل درآمد بینچ کوخط لکھا، رجسٹرارسپریم کورٹ نے فون پربتایا یہ اہم معاملہ ہے،جے آئی ٹی خود فیصلہ کرے، جے آئی ٹی خط میں یہ نہیں لکھا کہ اتفاق نہ ہونے پر سپریم کورٹ کو آگاہ کر رہے ہیں۔ واجد ضیاء نے بتایا کہ حمد بن جاسم نے کہا تھا کہ پاکستان نہیں آسکتا، حمد بن جاسم نے تجویز دی کہ جے آئی ٹی ارکان دوحہ یا قطر آجائیں، حمد بن جاسم نے کہا کہ سوالنامہ بھجوا دیں، جے آئی ٹی ٹیم میں سوالنامہ پراتفاق نہ ہوسکا، پھر جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا کہ سوالنامہ ابھی نہیں بھیجا جائے گا۔
نیب پراسیکیوٹر کی مداخلت
خواجہ حارث کے سوال پر نیب پراسیکیوٹر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ساتھ کئی سوالات پوچھ رہے ہیں جس سے گواہ کنفیوژ ہو رہا ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بتا دیں کہ میرے پوچھے گئے سوال کو الگ الگ کیسے پوچھا جا سکتا ہے؟ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ چار سوال اکٹھے پوچھیں گے تو سوال کا جواب درست نہیں آسکے گا۔ خواجہ حارث نے جج سے مکالمہ کیا کہ ہماری آپس کی نوک جھونک چلتی رہتی ہے ،اس پر ٹکٹ لگا دیں، اس پر مظفر عباسی نے کہا کہ آپ کی باتوں پر ویسے ہی ٹکرز چل جاتے ہیں، خواجہ حارث نے جواباً کہا کہ میں ٹکرز نہیں ٹکٹ کی بات کررہا ہوں،۔ خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ کیا آپ کوئی ایسا قانون بتا سکتے ہیں جو گواہ کو سوالنامہ بھجوانے سے منع کرے، اس پر واجد ضیاء نے کہا کہ قانون پر بات نہیں کروں گا، اپنا تجربہ بتا سکتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی کو سوالنامہ نہیں بھجوایا۔ نوازشریف کے وکیل نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ کیا آپ نے انویسٹی گیشن سے متعلق پولیس رولز پڑھ رکھے ہیں؟
نیب پراسیکیوٹر اور خواجہ حارث کی تلخ کلامی
خواجہ حارث کے اس سوال پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ گواہ سے یہ سوال نہیں پوچھا جا سکتا، یہ بات زبانی نہیں بتائی جاسکتی، ہم وکلا کو بھی قانون کا حوالہ دینے کے لیے قانون کی کتابیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر کی بار بار مداخلت پر خواجہ حارث برہم ہوگئے اور کہا کہ جب میں کوئی بات کررہا ہوں تو یہ نہ بولیں، میں نے پہلی مرتبہ ایسے پراسیکیوٹر دیکھے ہیں جسے کوئی تمیز نہیں۔ خواجہ حارث کے جواب میں نیب پراسیکیوٹر مظفر عباسی نے کہا کہ پہلی مرتبہ آپ کی مرضی کا پراسیکیوٹر آپ کے سامنے نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہ عدالت اس قدربےبس ہے کہ وہ گواہ کو سوال کا جواب دینے کا بھی نہیں کہہ سکتی۔ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ آپ پراسیکوشن اور کورٹ پر چڑھائی کرتے ہیں تو ہم کچھ نہیں بول سکتے؟ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کردی۔