خبرنامہ پاکستان

قومی اسمبلی اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کا پانامہ لیکس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا مطالبہ

اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشن کمیشن قائم کر کے پانامہ پیپرز لیکس معاملے کو منطقی انجام کو پہنچائیں، رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کی بیلنس شیٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے، پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں پر کاؤنٹر اٹیک کر کے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں، عوام کا پیسہ بیرون ملک منتقل ہونے کی تحقیقات ہونی چاہیے، ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پانامہ معاملہ میں 10سے 12سیاستدان ہیں باقی 198کاروباری لوگ ہیں۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں پانامہ پیپرز لیکس معاملہ پر بحث میں ارکان اسمبلی سید آصف حسنین، جہانگیر ترین، نوید قمر، عارف علوی اور دیگر نے حصہ لیا۔ اس موقع پر سید آصف حسنین نے کہا کہ پاکستانی عوام قیام پاکستان کے بعد حکمران کلاس کی کرپشن پر شرمسار ہیں، نواز شریف خاندان نے اپنے اثاثے چھپائے، ان پر دفعہ 62اور 63کا اطلاق ہونا چاہیے، آج تک کسی کمیشن کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا، اگر پارلیمنٹ کی سفارش پر کمیشن بنے تو کوئی نتیجہ سامنے آ سکتا ہے، آف شور کمپنیوں اور سوئس اکاؤنٹس کے پیسے ملک میں واپس لائے جانے چاہیں، نیب اور ایف آئی اے کرپشن کی تحقیقات کیلئے آزاد نہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر 150 افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ نیب کے مطابق روزانہ ملک میں 12 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، ملک کو کرپشن فری بنائے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے، کرپشن کے خاتمے پر اتفاق رائے کیلئے اے پی سی بلائی جائے، کرپٹ لوگوں کی جائیدادیں ضبط کی جائیں، آج ملک دیوالیہ ہو چکا ہے، اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کو آواز اٹھانی چاہیے، کرپٹ لوگوں کا سوشل بائیکاٹ ہونا چاہیے، ہمارے حکمران عوام کو تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتوں پر کاؤنٹر اٹیک کر کے یہ بتایا جائے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور سوچا جا رہا ہے کہ یہ مسئلہ اس سے ختم ہو جائے گا، اس معاملے کو کنویں کے مینڈک کی طرح دیکھیں گے تو یہ معاملہ ختم ہو جائے گا، ابھی تک پانامہ لیکس پر ایک وزیراعظم کی چھٹی ہوئی ہے، اس مسئلے پر ایک یا دو دن بحث کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک وکیل کے دفتر کے کاغذات ہیں ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی جنہوں نے وزیراعظم کو تجاویز دیں ہیں وہ مخلص نہیں ہیں، ایسا منصف ڈھونڈیں جس کے ٹھپہ لگانے سے حکومت اور وزیراعظم کی بچت ہو جائے۔ قوم سوال پوچھ رہی ہے کہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کیوں کی گئی، کسی مسئلے پر بحث پہلے مشکل ہوتی ہے اگر ہو بھی جائے تو بلیک آؤٹ ہو جاتی ہے، فرانزک آڈٹ کے بعد قوم کوفیصلہ کرنے دیا جائے۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کی مشاورت کے بغیر بنائے جانے والے کمیشن کی کوئی وقعت نہیں ہوگی، وزیراعظم ملک کے خزانے کی کنجی ہوتے ہیں اور خزانے کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کے ماتحت کمیشن بننا چاہیے، پیسے باہر گئے تو کہاں سے گئے اس کا بھی قانونی جائزہ لیا جانا چاہیے، وزیراعظم کے اثاثوں اور کمپنیوں کی بیلنس شیٹ عوام کے سامنے لائی جائے، اتفاق فاؤنڈری کے منافع سے شوگر ملز اور دیگر فیکٹریاں بنائی گئیں، رمضان اور چوہدری شوگر ملوں کی بیلنس شیٹ کو منظر عام پر لایا جائے، دولت حاصل کرنے کے ذرائع کو واضح کرنا ہو گا، وزیراعظم کا خاندان 15 سال سے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک کا کاروبار کر رہا تھا، وزیراعظم نے گزشتہ 30 سالوں سے ایک ہزار سے 15 ہزار تک ٹیکس دیا ہے، حکومت سرکاری وسائل استعمال کر کے بھی حکومت پھر بھی کامیابی حاصل نہیں کی۔ رضا حیات ہراج نے کہا کہ ابھی تک صرف ایک دستاویز آئی ہے، اس کی تحقیقات ہوں گی، آف شور کمپنی کا شیئر ہولڈر ہونا کوئی گناہ نہیں ہے، یہاں سب نے قانونی یا غیر قانونی کی بات نہیں کی بلکہ اخلاقی اور غیر اخلاقی کی بات کی گئی، اخلاقیات پر آئیں تو یہ ممبران یہاں بیٹھنے کے قابل ہی نہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ملک سے غیر قانونی طور پر باہر جانے والے پیسے یک تحقیقات پہلے بھی نہیں ہوئیں، وزیر خزانہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں مگر اڑھائی سال ہو گئے ہیں، پاکستان کے قوانین کے خلاف بیرون ملک کمپنیاں بنائی گئیں، غیر قانونی طور پر پیسے منتقل کئے گئے، اس کی تحقیقات ہونی چاہیے، 10 یا 12سیاستدان ہیں اور باقی کاروباری لوگ ہیں، 133 ارب روپے کی کرپشن کا اعتراف ڈی جی نیب نے بھی کیا ہے۔(اح+ع ح)