خبرنامہ پاکستان

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے پی این اے سی بل کی منظوری دیدی

اسلام آباد (آئی این پی ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے قومی اسمبلی کی طرف سے بھجوائے گئے پاکستان نیشنل ایکریڈیٹیشن کونسل(پی این اے سی) بل 2016 کی مزید ترمیم کے ساتھ منظوری دیدی جبکہ پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (پی سی ایس ٹی) بل 2016میں تجویز کردہ ترامیم کو واپس لے لیا گیا،وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان آبی وسائل کی تحقیقاتی کمیٹی (پی سی آر ڈبلیو آر) میں گزشتہ 10سال سے کام کرنے والے 158ملازمین کو مستقل کرنے کا معاملہ حل نہ ہونے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انہیں وزارت کی سطح پر ہی مستقل کرنے کی سفارش کی ، اس دوران بعض ممبران نے تجویز دی کہ ان ملازمین کا مسئلہ حل ہونے تک اس معاملے کو کمیٹی کے ایجنڈے پر رکھا جائے ، کمیٹی نے دو سال قبل پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے قائم سب کمیٹی کو ختم کر دیا ،وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین پرانی بریفنگ دوبارہ دینے پروزارت پر برہم نظر آئے ، پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بل کی لاء ڈویژن سے گفت وشنید کیے بغیر کمیٹی میں پیش کرنے پر لاء ڈویژن کے اعتراض پر وزارت کو سبکی کا سامنا ، مجبورا ترمیم واپس لے لی ، ممبر کمیٹی عالیہ کامران نے کہا کہ ان ملازمین کی بھرتی بذریعہ اشتہار ہوئی تھی، اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، وزیراعظم ہاؤس کو سمری بھجوانے سے معاملہ لمبا ہو جائے گا ، ہماری ہمدردیاں ملازمین کے ساتھ ہیں ۔منگل کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی چوہدری طارق بشیر چیمہ کی زیر صدارت پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا۔وفاقی سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی فضل عباس میکن نے پی سی آر ڈبلیو آر کے مستقل نہ ہونے والے ملازمین کے حوالے سے کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 158پوسٹیں پراجیکٹ سے نان ڈویلپمنٹ سائیڈ پر منتقل ہوئیں۔ اس میں اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت ہے کہ جب کوئی پراجیکٹ ڈویلپمنٹ سائیڈ سے نان ڈویلپمنٹ سائیڈ پر منتقل ہوتا ہے تو ان پوسٹوں پر نئی بھرتیاں کی جاتی ہیں ، ملازمین کا موقف تھا کہ وہ دس سال سے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے اور ان میں سے بہت سے اوورایج ہو چکے ہیں۔ ان کے اس مسئلے کو دیکھتے ہوئے وزارت نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کو اس حوالے سے سمری بھجوائی جائے کہ ان ملازمین کو ریگولر کرنے کی اجازت دی جائے۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ان ملازمین کا مسئلہ حل ہو ،اس حوالے سے وزیراعظم کو ذاتی طور پر کہنا پڑے گا اور یہ کیس ذاتی طور پر ان کے پاس لے کر جاؤں گا۔ انہوں نے کمیٹیسے کہا کہ وہ بھی اس حوالے سے وزارت کی مدد کرے جس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی اس حوالے سے بھرپور سفارش کرتی ہے کہ ان ملازمین کو ریگولر کیا جائے، کمیٹی کی طرف سے بھی حکومت کو ان ملازمیں کو ریگولر کرنے کی سفارش بھجوائی جائے ، ممبر کمیٹی علی محمد خان نے تجویز دی کہ جب تک یہ ایشو ختم نہ ہو اس کو کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے پر رکھا جائے اور اس معاملے کو وزیراعظم کے پاس بھجوانے کی بجائے وزارت کو خود حل کرنا چاہئے۔ اگر ان لوگوں کو پراجیکٹ پر پراپر طریقے سے پہلے بھرتی کیا گیا تھا ۔اس پر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا کہ اس حوالے سے کمیٹی ہمیں وقت دے ، وزارت اس معاملے کو پہلے خود دیکھے گی کہ وہ کیا کر سکتی ہے ،ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ ملازمین کے مسئلے کو حل کرنا ہے ، وزیراعظم ہاؤس جاتے ہیں تو ہاں اور ناں ہو سکتی ہے ،انہوں نے بتایا کہ جو ملازمین پراجیکٹ پر آتے ہیں۔ ان کی خدمات صرف انہی پراجیکٹ کیلئے ہوتی ہیں۔ پراجیکٹ ختم ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ان کی نوکری بھی ختم ہو جاتی ہے چونکہ ان ملازمین نے دس سال تک پراجیکٹ پر کام کیا ہے ۔ہم ان کے حق میں ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ یہ ہر صورت میں مستقل ہوں، چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ رولز لوگوں کی سہولت کیلئے ہوتے ہیں لہٰذا انہیں لوگوں کی سہولت کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے، ممبر کمیٹی عالیہ کامران نے کہا کہ ان ملازمین کی بھرتی بذریعہ اشتہار ہوئی تھی اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ وزیراعظم ہاؤس سمری بھجوانے سے معاملہ لمبا ہو جائے گا ، ہماری ہمدردیاں ملازمین کے ساتھ ہیں ، اس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے وفاقی سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی سے کہا کہ اگر رولز آپ کو اجازت دے رہے ہیں تو ان ملازمین کا معاملہ وزارت کی حد تک ہی حل کر لیا جائے۔ کمیٹی نے قومی اسمبلی کی طرف بھجوائے گئے پی این اے سی بل 2016میں گریڈ 21کے افسران کو بیرون ملک ورکشاپ ، ٹریننگ میں جانے کی اجازت کے حوالے سے ترمیم کی متفقہ طور پر منظوری دیدی تاہم اس بل میں ایک اور ترمیم کو وزارت نے واپس لے لیا۔کمیٹی نے پاکستان کونسل فار سائنس و ٹیکنالوجی (پی سی ایس ٹی) 2016بل میں کونسل میں دو معروف صنعتکاروں کی شمولیت کے حوالے سے ترمیم کو واپس لے لیا گیا ، یہ ترمیم لاء ڈویژن کے سینئر ڈرافٹسمین محمد اسرار کی رائے کے بعد واپس لے لی گئی کہ کونسل کے ممبران میں اضافہ یا کمی کا اختیار اتھارٹی کو پہلے ہی حاصل ہے ، لاء ڈویژن کے عہدیدار کی طرف سے یہ بات بتانے پر چیئرمین قائمہ کمیٹی چوہدری طارق بشیر چیمہ نے انتہائی حیرت کا اظہار کیا کہ وہ ایک گھنٹے سے اس معاملے پر بحث کر رہے ہیں مگر اب ایک سرکاری افسر نے رائے دی ہے کہ اس ترمیم کی ضرورت ہی نہیں ہے ، چیئرمین قائمہ کمیٹی نے دو سال قبل 2014 میں کنونیئر علی محمد خان کی سربراہی میں قائم سب کمیٹی کو بھی ختم کر دیا اور کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے سب کمیٹیوں کے حوالے سے ہدایات جاری کی ہیں کہ کوئی بھی سب کمیٹی ایک ماہ کے اندر رپورٹ دینے کی پابند ہو گی مگر یہ کمیٹی دو سال قبل بنائی گئی تھی اس نے تاحال کوئی رپورٹ تیار نہیں کی لہٰذا اس کو ختم کیا جاتا ہے۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے ایک موقع پر کہا کہ کہا جاتا ہے کہ جب تک عام آدمی اسمبلیوں میں نہیں آئیں گے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے اب میرا ڈرائیور ہی رہ گیا ہے جس نے منتخب ہونا چاہئے ، عام آدمی جب آتا ہے توہ پہلے اپنے مسائل کو ہی دیکھتا ہے۔ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ممبر کمیٹی عالیہ کامران نے کہا کہ ممبران پارلیمینٹ کو ترقیاتی فنڈز نہیں ملنے چاہئیں ہمارا کام قانون سازی ہے ،اس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ پچھلے آٹھ سال سے انہوں نے ترقیاتی فنڈز کی شکل تک نہیں دیکھی ہے ، عالیہ کامران نے کہا کہ اس حوالے سے بھی ترمیم آنی چاہئے کہ ممبران پارلیمینٹ کو ترقیاتی فنڈز نہیں ملنے چاہئیں اس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ایسی ترمیم نہیں آئے گی، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسیننے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کی بیماری 85میں آئی تھی۔(ع ح)