خبرنامہ پاکستان

لاپتہ افراد کیس:بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے؛آنکھیں بند نہیں کر سکتے: چیف جسٹس

اسلام آباد:(اے پی پی)سپریم کورٹ نے ملک بھر سے لاپتہ افراد کے بارے میں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے رپورٹس طلب کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی کو ہدایت کی ہے کہ تمام رپورٹس ہر حال میں یکم مئی سے قبل جمع کرا دی جائیں۔ پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا مقدمہ حساس ترین مقدمہ ہے تاہم افسوس ہے کہ اتنے اہم مقدمے کو دو سال بعد سماعت کے لئے مقرر کیا گیا، یہ لوگوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اس پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، مقدمے کو سماعت کے لئے لگانے کا مقصد اس حوالے سے معلومات اکٹھی کرنا ہے کہ آیا لاپتہ افراد کس نے اٹھائے، کیا یہ سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں یا حراستی مراکز میں ہیں، کتنے زندہ اور کتنے مر چکے ہیں، کتنے اپنی مرضی سے اور کتنوں کو مقابلے میں مار دیا گیا۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ مرنے والے کا غم تو آخر ختم ہو ہی جاتا ہے جن کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ان کا غم ختم نہیں ہوتا، آپ کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کو حساس اداروں نے اٹھایا ہے جب ان سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اپنی مرضی سے کہیں گئے ہیں۔ مسعود جنجوعہ کے حوالے سے رپورٹ میں واضح کہا گیا تھا کہ وہ اب زندہ نہیں اس پر آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ ان کے حوالے سے کافی شہادت موجود ہے۔ لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 285 لاپتہ افراد ہیں ان کو سکیورٹی اداروں نے اٹھایا ہے ان کو ابھی تک بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ بتائیں کہ اس کا کیا حل ہے، یہ کیسے بازیاب ہو سکتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بعض افراد حراستی مراکز میں ہیں ان کو بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔ باقی لوگوں کی بات علیحدہ ہے ہر ایک کو سکیورٹی اداروں نے اٹھایا ہے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے بارے میں کمشن کی رپورٹ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ رپورٹ تو سب کو جانی چاہئے تھی آپ کو یہ ریکارڈ تاریخ سماعت سے قبل جمع کرانا چاہئے تھی۔ اب کیا کریں گے آپ نے یہ ریکارڈ پہلے کیوں فائل نہیں کیا اتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ یہ مارچ 2015 کا معاملہ ہے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ کمیشن کے روبرو پیش ہوتی رہی ہیں، وہاں پر حساس اداروں کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہاں پریشان حال والدین ڈر کے مارے جا ہی نہیں سکتے۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال، ریٹائرڈ آئی جی، ایک اور ممبر بھی بیٹھتے ہیں۔ ایجنسیز کو کمیشن بلاتے ہیں، وہ رپورٹ پیش کرتے ہیں بڑی تعداد میں لوگ بازیاب ہوئے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایسا کوئی شخص سامنے نہیں آیا۔ میرے مقدمات کی بات نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فروری 2016ء تک کی بات کی گئی ہے، کہا گیا ہے کہ ایک ہزار سے زائد لوگ بازیاب ہوئے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ حساس اور انسان کے بنیادوں حقوق کا معاملہ ہے دنیا سے جانے والے پر صبر آ جاتا ہے اس طرح کے حالات ہو جائیں تو فکر اور غم ختم نہیں ہوتے۔