خبرنامہ پاکستان

مدارس اور علماء کے کردار سے ملک کی نظریاتی سرحدیں محفوظ ہیں: فضل الرحمن

پشاور (ملت + آئی این پی) جمعیت علماء اسلام(ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ مدارس اور علماء کے کردار کی وجہ سے ملک کی نظریاتی سرحدیں محفوظ ہیں، عالمی اجتماع مظلوم قوتوں سے اظہار یکجہتی اور مذہبی قوتوں کیلئے ڈھال ثابت ہوگا، مذہبی قوتیں اور مدارس اسلام اور ملک کے دفاع میں اہم رول ادا کررہی ہیں، مدارس اور علماء کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے دشمن قوتوں کے خلاف کاروائی سے کیوں گریزاں ہیں۔ وہ بدھ کو صوبائی سیکرٹریٹ پشاور میں صوبہ بھرکے مہتمیمن اور مدرسین کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔اجلاس کی صدارت مولانا گل نصیب خان نے کہ جبکہ مولانا شجاع الملک، مولانا راحت حسین، مولانا عین الدین شاکر، مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد نے بھی خطاب کیا، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت صرف علماء اور مدارس کو نشانہ بنایا اور مدارس کے خلاف حالیہ کاروائیاں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی، انھوں نے کہا کہ فوجہ عدالتوں کے قیام میں توسیع سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کے مشورہ کے بغیر نہیں ہونا چاہیے، انھوں نے کہا کہ عالمی اجتماع 7,8,9اپریل کیلئے علماء کرام مدرسین اور مہتمیمن نے بنیادی رول ادا کرکے ملک دشمن اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف پیغام دینا ہے، یہ اجتماع نہ صرف ملک میں یکجہتی کا مظہر ثابت ہو گا بلکہ پوری امت مسلمہ کے مظلوم قوتوں کیلئے ایک موئثر پلٹ فارم میسر ہو گا، انھوں نے کہا کہ دنیا بھر سے عالمی، مذہبی اور سیاسی شخصیات کی شرکت سے مظلوم قوتوں کیلئے امن اور یکجہتی کا پیغام ثابت ہو گا، ابعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فاٹا میں اصلاحاتی پیکیج پر حکومت اور جمعیت میں اتفاق رائے ہو چکا ہے، کابینہ کے آئندہ کے اجلاس میں فاٹا اصلاحات کا اعلان ہو گا، انھوں نے کہاکہ فاٹا کو مالیاتی ، اقتصادی اور ترقیاتی پیکیج دیے جائے، اسکی بحالی کیلئے موئثر اقدامات کئے جائیں، ہسپتال، یونیورسٹی ، میڈیکل کالجز، انجینئرنگ اور آئی ٹی یونیورسٹیوں کی سہولیات کا فوری اعلان کیا جائے، اور فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے فاٹا کے عوام سے رائے لی جائے۔انھوں نے کہا کہ مذہبی طبقات آزمائش سے گذر رہے ہیں، اسلامی دنیا آج مشکلات کی زد میں ہے انتہائی پسندی کا زمہ دار کون ہے، اکثریتی آبادی مذہبی سوچ کی ہے، مذہبی آبادی پرچند فیصد لوگ حکومت کررہے ہیں، پورے ملک کا نظام بیورکریسی کے ہاتھ میں ہے، ہمارے ملک کا آئین اسلام کو پاکستان کا مملکتی مذہب قرار دیتا ہے، اور قانون ساز اداروں کو پابند کرتا ہے کہ وہ قانون سازی قرآن وسنت کے مطابق کرنا ہوگی، ہم آئین کے مطابق مطالبات کررہے ہیں،پورے پاکستان کی کا مذہبی طبقہ ایک پیچ پر ہے سب پاکستان کے آئین ، پارلیمنٹ ، جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کے ساتھ ہیں اور قرآن وسنت کے قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن چھوٹا سا طبقہ پاکستان میں تبدیلی کیلئے تیار نہیں ، 70ء4 سے اسلامی قانون کا نفاز نہیں ہو سکا، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ااسمبلی سے پاس کرانے نہیں دیا جاتا آئین سے ماورا فیصلے کئے جارہے ہیں، مغرب اور اسکے ایجنٹ مدارس کو خوف زدہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہے، لیکن پر امن جدوجہد کرنے والوں کو دھشت گرد اور اسلحہ اٹھانے والوں کو اسلام کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ہم وفادار محب وطن پاکستانی ہے ہمیں شک کی بنیاد پر نا دیکھا جائے، ہم ملک وقوم کو بچانے کے خواہشمند ہیں۔