خبرنامہ پاکستان

مسئلہ کشمیرکےحل تک خطےکےمسائل حل نہیں ہوسکتے:ممنون

اسلام آباد (آئی این پی ) صدرمملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ملک کے جمہوری نظام میں بحرانوں کا کامیابی سے سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے، حزب اختلاف یا کسی بھی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ منتخب حکومت پر غیر قانونی طریقے سے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے، قوم معاشی استحکام کے ایجنڈے پر متفق ہو جائے تاکہ ہر طرح کے حالات میں اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہ سکے ،مجھے یقین ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور دیگر متعلقہ حلقے اس تجویز پر غور کر کے جلد ہی کوئی ٹھوس قدم اُٹھائیں گے، گزشتہ تین برس کے دوران نرم گرم اورتلخ و شیریں ،ہر طرح کے ماحول میں ہمارا یہ جمہوری سفر کامیابی سے جاری و ساری رہا، اب یہ قوم کے ہر فرد، ہر طبقے اور ہر ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی زندگی میں فروغ پانے والے اس مثبت رحجان کو توانا اور قوی بنانے کے مشن میں دل و جان سے شریک رہے ،گزشتہ برسوں کے دوران عوامی بہبود کے کئی اقدامات سامنے آئے ہیں جن میں نوجوانوں کے لیے کاروبار کے مواقع، فنی تربیت ، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی کی مدد کے لیے جامع پروگرام ، بنیادی اشیائے صرف پر سبسڈی ، کسانوں اور کاشت کاروں کے لیے خصوصی پیکج، پسماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے مفت تعلیمی سہولتیں اور وظائف، ہونہار اور اعلیٰ تعلیم خصوصی پیکج، پسماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے مفت تعلیمی سہولتیں اور وظائف، ہونہار اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے لیپ ٹاپ کی فراہمی اور ہیلتھ انشورنس اسکیم جیسے کئی منصوبے شامل ہیں حکومت کی معاشی کار کرد گی حوصلہ افزا نظر آتی ہے،عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ٹیکسوں کے نظام اور وصولی میں بہتری ہوئی،زرِمبادلہ کے ذخائر اور قومی پیداوار کی شرح نمو اطمینان بخش طریقے سے بڑھ رہی ہے اور اس برس یہ 4.7 فیصد رہی،بجٹ خسارے میں کمی آئی، افراطِ زر کی شرح قابو میں رہی اور روپیہ مستحکم ہوا،یہ اشاریے مثبت ہیں جن سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی ، ہماری اقتصادی ترقی کی رفتار تیز ہو گی اورپاک چین اقتصادی راہداری سے اسے مزید مہمیزملے گی، معاشی میدان میں ایسی خوش آئند پیش رفت مستقل مزاجی کے ساتھ تشکیل دی گئی حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے،میں چاہوں گا کہ معیشت کے استحکام کے لیے پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے اور معیشت کی بہتری کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لیے بھی مزید اقدامات کیے جائیں کیونکہ اچھی حکومت کی یہی پہچان ہے۔صدر مملکت بدھ کو چوتھے پارلیمانی سال کے آغاز پر یہاں پارلیمنٹ ہاوس میں سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کے تین برسو ں کی کامیابی سے تکمیل اور چوتھے سال کے آغاز پر میری طرف سے مبارک باد قبول کیجئے۔ تین برس کا یہ سفر اس حقیقت کا غماز ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں اتنی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ مختلف قسم کے بحرانوں کا سامناکامیابی سے کر سکے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ پائیدار ترقی اور استحکام کا مقصد جمہوریت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی بلوغت کی جانب یہ ایک بڑی قومی پیش رفت ہے جس کے لیے پارلیمان، سیاسی جماعتیں اور پاکستانی قوم خراج تحسین کی مستحق ہے ۔ میں آپ سب کو اس پیشرفت پر ایک بار پھر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین برس کے دوران نرم گرم اورتلخ و شیریں ،ہر طرح کے ماحول میں ہمارا یہ جمہوری سفر کامیابی سے جاری و ساری رہا، اب یہ قوم کے ہر فرد، ہر طبقے اور ہر ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی زندگی میں فروغ پانے والے اس مثبت رحجان کو توانا اور قوی بنانے کے مشن میں دل و جان سے شریک رہے ع۔تیز تَرک گامزن، منزل مادور نیست ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی آبیاری اور افزائش کے ذریعے ہی عوام کی خدمت اور ان کے معیار زندگی میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور نظام کو مزید مستحکم ا ور پائیدار بنایا جا سکتا ہے جو حکومتیں فرد اور ریاست کے تعلق کی اس نوعیت کو سمجھ کر قانون کی یکساں حکمرانی ، معاشی ترقی اور عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کویقینی بنا دیتی ہیں، ایسی حکومتیں مشکل مقامات سے بآسانی گزر کر نظام اور جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں اس حقیقت سے آگاہ ہیں اور اپنی پالیسیاں اِسی فلسفے کی روشنی میں ترتیب دے رہی ہیں جس کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے۔میں چاہوں گا کہ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو، وہ اپنی پالیسیاں اسی آزمودہ اصول کی روشنی میں ترتیب دے تاکہ جمہوری نظام کی جڑیں مضبوط ہوں اور پاکستانی عوام آسودگی اور خوش حالی کی زندگی بسر کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ کسی قوم کی ترقی اور خوش حالی کا اندازہ اس کی معاشی کارکردگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک پرانے سیاسی کارکن اور معاشیات کے طالب علم کی حیثیت سے میری نظر ان معاملات پر ہمیشہ رہی ہے۔ خطے میں پائی جانے والی بے چینی ، کئی دہائیوں سے جاری جنگوں، دہشت گردی اور مختلف ادوار کے دوران مالی نظم و نسق برقرار رکھنے میں ناکامی کی وجہ سے ملک بہت سے مسائل سے دوچاررہاہے جس سے قومی آمدنی اور پیدا وار تشویش ناک حد تک متاثر ہوئی۔یہ صورتِ حال تقاضا کرتی تھی کہ زر مبادلہ کے ذخائر اور قومی پیداوار میں اضافے کے ساتھ بجٹ خسارے اور اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں کمی لائی جائے ۔ اس تناظر میں جب ہم غیر جانبدار بین الاقوامی اداروں کی حالیہ رپورٹوں کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال حوصلہ افزا نظر آتی ہے ۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ٹیکسوں کے نظام اور وصولی میں بہتری ہوئی،زرِمبادلہ کے ذخائر اور قومی پیداوار کی شرح نمو اطمینان بخش طریقے سے بڑھ رہی ہے اور اس برس یہ 4.7 فیصد رہی۔بجٹ خسارے میں کمی آئی، افراطِ زر کی شرح قابو میں رہی اور روپیہ مستحکم ہوا۔ یہ اشاریے مثبت ہیں جن سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی ، ہماری اقتصادی ترقی کی رفتار تیز ہو گی اورپاک چین اقتصادی راہداری سے اسے مزید مہمیزملے گی۔ معاشی میدان میں ایسی خوش آئند پیش رفت مستقل مزاجی کے ساتھ تشکیل دی گئی حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ میں چاہوں گا کہ معیشت کے استحکام کے لیے پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے اور معیشت کی بہتری کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لیے بھی مزید اقدامات کیے جائیں کیونکہ اچھی حکومت کی یہی پہچان ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ اگر ہم پاکستان کو خوشحال دیکھناچاہتے ہیں تو ہمیں اپنے عوام اورخاص طور پر غریب طبقات کی فلاح و بہبود کویقینی بنانا ہو گا۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ پاکستان کی اقتصادی پالیسی کا محور قائد اعظمؒ کا یہی فرمان ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران عوامی بہبود کے کئی اقدامات سامنے آئے ہیں جن میں نوجوانوں کے لیے کاروبار کے مواقع، فنی تربیت ، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی کی مدد کے لیے جامع پروگرام ، بنیادی اشیائے صرف پر سبسڈی ، کسانوں اور کاشت کاروں کے لیے خصوصی پیکج، پسماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے مفت تعلیمی سہولتیں اور وظائف، ہونہار اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے لیپ ٹاپ کی فراہمی اور ہیلتھ انشورنس اسکیم جیسے کئی منصوبے شامل ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کمزور اور غریب طبقات کے مسائل میں کمی کے لیے اس طرح کے اقدامات مسلسل کیے جاتے رہنے چاہیں تاہم معاشی پالیسیوں پر حزبِ اختلاف کی تنقید کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک سمجھ دار حکومت کی طرح اپنی طاقت بنا لینا چاہیے تاکہ ان پالیسیوں میں مزید بہتری آئے اور ان کی افادیت مزید بڑھ جائے لیکن اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تنقید کرتے ہوئے بابائے قوم کی اس ہدایت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ حزب اختلاف یا کسی بھی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ منتخب حکومت پر غیر قانونی طریقے سے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ قائد اعظمؒ کے بتائے ہوئے اس رہنماء اصول میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ضد اور ذاتی اختلافات کو قومی مفادات پر غالب آنے دیا جائے تو اس کے نتیجے میں معاشرے کانظم درہم برہم ہوجاتا ہے جس کا تلخ تجربہ ہم اپنی پارلیمانی، جمہوری اور سیاسی تاریخ میں بارہا کر چکے ہیں لیکن آئندہ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ اب غلطی کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اپنی تاریخ کے اس مرحلے پر قوم کو اتفاق رائے اوریک جہتی کی جتنی ضرورت آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھی،پاک چین اقتصادی راہداری کے تناظر میں اس کی اہمیت تو اور بھی زیادہ ہے۔اس منصوبے کی تشکیل، پاک چین معاہدوں اورمختلف روٹس کی منصوبہ بندی کے بہت سے امور میں مختلف مواقع پر ہونے والی پیشرفت کی تفصیلات براہ راست میرے علم میں ہیں، ان معاملات میں بعض حلقوں کی طرف سے جو تحفظات سامنے آئے ہیں، ان میں وزن نہیں۔ قومی معیشت کے احیاء کے لیے اس اہم ترین منصوبے پر پروگرام کے مطابق کام جاری ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ اس معاملے میں قومی اتفاق رائے کے لیے مؤثر کوششیں کی گئی ہیں جن سے شکوک و شبہات کے خاتمے میں مدد ملی ہے لیکن اگر ہمارے درمیان اس منصوبے کے کسی بھی پہلو کے بارے میں خواہ چند لوگوں کے ذہن میں ہی کوئی خدشہ ہے تو بات چیت کے ذریعے اسے بھی دور کر دیا جائے تاکہ غیروں کو کسی قسم کی شہ نہ مل سکے۔انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری قومی معیشت کے احیا کے لیے کتنی اہم ہے، محتاجِ بیاں نہیں لیکن میں آپ کو یہ ضرور بتاناچا ہوں گاکہ اس راہداری سے مستفید ہونے کے لیے ہمارے پڑوسی خاص طور پر وسط ایشیا کے ممالک نے ابھی سے تیاری شروع کردی ہے۔ کئی ملکوں کے قائدین نے مجھے ذاتی طور پر بتایا کہ یہ راہداری ان کی معیشت کی ترقی کے لیے ایک سنہری موقع ثابت ہوگی۔ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان زمینی روابط بڑھانے کے لیے جن شاہراہوں کی تعمیر کے معاہدے ہوئے ہیں، ان کا سبب بھی یہی راہداری ہے۔ اس لیے میں اپنے ہم وطنوں سے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ع۔اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے۔مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغازہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتصادی راہداری کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تندہی سے کام کیا جائے ۔ اس سلسلے میں چینی ماہرین اور کارکنوں کی حفاظت کے لیے خصوصی سیکیورٹی ڈویژن کا قیام عمل میں آگیا ہے اور سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ بھر پور طریقے سے جاری ہے، مجھے امید ہے کہ اقتصادی راہداری کے مغربی اور چند دوسرے روٹس پربیشتر کام اس سال کے آخر تک مکمل ہوجائے گا جبکہ اس منصوبے کے کُلی طور پر مکمل ہونے میں کچھ وقت لگے گا، اس دوران ملک میں کئی بار انتخابات ہوں گے اور کئی حکومتیں ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گی۔اقتصادی راہداری منصوبے کے اس نظام الاوقات سے واضح ہے کہ اس کا تعلق کسی حکومت، کسی جماعت یا چند خاص سیاسی شخصیات کے مفاد سے نہیں بلکہ یہ خالصتاََ ایک قومی منصوبہ ہے ،اس لیے یہ قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قسم کے تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس منصوبے کی راہ میں حائل ہر داخلی و خارجی رکاوٹ کو ناکام بناد ے تاکہ قوم معاشی خود انحصاری کی منزل حاصل کرسکے ، یاد رکھیے کہ جو قومیں اپنے داخلی تنازعات کے سبب اقتصادی استحکام سے محروم رہتی ہیں ، انھیں غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتے ہیں اور جو قومیں اپنے تضادات پر قابو پاکر معیشت کو مضبوط بنالیتی ہیں ، زمانہ ان کے سامنے سرنگوں ہوجاتا ہے اور وہ اپنے مقدر کو سنوارنے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے میں آزادہو جاتی ہیں، ہمیں بھی یہی کرنا ہے ، اس مقصد کے لیے ہمیں ابھی کچھ مزید مشکل فیصلے کرنے ہوں گے لیکن اس کے ساتھ ہی آسودہ حال طبقات اور کاروباری و صنعتی شعبوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری خوش دلی سے پوری کریں تاکہ ہم سب اپنے وطن کے طفیل جن سہولتوں اور نعمتوں سے فیض یاب ہورہے ہیں، اُن کا حق ادا کرسکیں جس کا سب سے بڑا طریقہ ٹیکس کی ادائیگی ہے۔ زندہ قومیں اپنی یہ ذمہ داری قومی اور سماجی فریضہ سمجھ کر ادا کرتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹیکس وصولی کے دائرے میں مزید وسعت کی تدابیر کرے اور اس سلسلے میں حقیقت پسندانہ پالیسی تیار کر کے ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری لانے کا سلسلہ جاری رکھے۔ ان معاملات میں ہمارے ہاں نظیریں بھی موجود ہیں اور کاروباری برادری کے تعاون سے مزید بہتر تجاویز بھی تیار کی جاسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکمران اور حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ریاست برقر ار رہتی ہے اور یہی حقیقت پورے نظام کی بنیاد ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے سیاسی اختلافات برقرار رکھتے ہوئے بھی معیشت کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے کیونکہ مضبوط پاکستان کی تعمیر مضبوط معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے ، اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ قوم معاشی استحکام کے ایجنڈے پر متفق ہو جائے تاکہ ہر طرح کے حالات میں اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہ سکے ۔مجھے یقین ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور دیگر متعلقہ حلقے اس تجویز پر غور کر کے جلد ہی کوئی ٹھوس قدم اُٹھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ معیشت کا استحکام اور اقتصادی خود انحصاری ہماری ہر حکومت کا نصب العین ہونا چاہیے۔جرأت مندانہ معاشی فیصلے اور اقتصادی راہداری کی تعمیر جیسے منصوبے ان ہی مقاصد کی جانب پہلا قدم ہیں جن کے روبہ عمل آنے سے نہ صرف علاقائی روابط(Connectivity) میں اضافہ ہو گا بلکہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں بھی مدد ملے گی، معاشی استحکام کایہ مقصداس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک ہم توانائی کے معاملے میں مکمل طور پر خود کفیل نہ ہو جائیں ، یہی وجہ تھی کہ بجلی کی پیداوار کے منصوبو ں کو اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بنا دیاگیا ، اب اس کے فوائد سامنے آرہے ہیں ۔ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی تقسیم کے نظام میں بہتری آئی ہے جس سے عوام نے کافی حد تک سکون کا سانس لیا ہے ۔ میں توقع کرتا ہوں کہ 2018 ء تک بجلی کے تمام منصوبو ں کی تکمیل کے بعد توانائی کے بحران پر قابو پا لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ توانائی کے بحران کی ایک بڑی وجہ قدرتی گیس کے ذخائر میں پیدا ہونے والی کمی بھی تھی، قطر سے ایل این جی کی در آمد سے صنعتی پیداوار میں رونما ہونے والی کمی پر قابو پانے میں مددملی ہے، سرکاری اور نجی سرمایہ ڈوبنے سے بچا ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعدادکو روزگار بھی ملا ہے لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں مزید متبادل ذرائع سے بھی توانائی کے حصول پر کام جاری رکھنا چاہیے جن میں ہائیڈل، سولر ، ونڈ اور کوئلہ وغیرہ شامل ہیں ۔ اس سلسلے میں میری تجویز ہو گی کہ ہمیں گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر اور دیگر بالائی علاقوں کے ندی نالوں اور آبی گزرگاہوں سے بھی بجلی کی پیداوار شروع کرنے پر توجہ دینی ہو گی کیونکہ ان ذرائع سے ہمیں بہت سستی اور وافر بجلی میسر آسکتی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ دیامر بھاشااور داسو ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان چھوٹے منصوبوں پر بھی ابھی سے غور شروع کر دیا جائے ۔ اس سلسلے میں ایک قابل عمل تجویز یہ ہو سکتی ہے کہ سستی بجلی کی پیداوار کے ان مواقع کی طرف درمیانے درجے کے نجی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا جائے اورگلگت بلتستان کو نیشنل گرڈ سے منسلک کر دیا جائے، اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے حالات بدل جائیں گے۔انہوں نے کہا کہبجلی کی پیداور میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی ترسیل کے نظام میں بھی بہتری اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ جس علاقے میں بجلی پیدا ہو، سرمایہ کار اور تقسیم کار کو اسی علاقے میں بجلی فروخت کرنے کی اجازت مل جائے تو اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں سرمایہ کاری بھی بڑھ جائے گی اور بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام میں بھی خاطر خواہ بہتری آجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ قومی ترقی کا خواب صرف اسی صورت میں شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے جب ملک میں امن و امان ہو، کاروباری ماحول سازگار ہو اور سرمایہ کار بلا خوف سرمایہ کاری کر سکے، مجھے خوشی ہے کہ اب ملک کے مختلف حصوں، بالخصوص وزیرستان، بلوچستان اور کراچی میں بحالیِ امن کی کارروائیوں کے بھی حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں اور ملکی سطح پر معاشی ترقی کی شرح بہتر ہوئی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس سال کے آخر تک داخلی سلامتی کو یقینی بنا کر ہم ضربِ عضب کے تمام اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔اس لیے اب ہمیں اپنی توجہ ان آپریشنوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو برقرار رکھنے پر بھی مبذول کرنی چاہیے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ علاقوں میں سول انتظامیہ کی رٹ بحال کر کے ذمہ داریاں بتدریج اسے منتقل کردی جائیں۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر اور خاص طور پر متاثرہ علاقوں میں ماضی کے تکلیف دہ حالات کے اعادے سے بچنے کے لیے خصوصی منصوبے بنائے جائیں۔ ایسے تاجراور صنعت کار جن کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں، ان کی بحالی کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ان علاقوں کے لوگ ایک بار پھر زندگی کی گہما گہمی میں شریک ہو سکیں ۔اس مقصد کے لیے ان علاقوں کے نوجوانوں کومایوسی سے بچانا اورماضی کی تلخ یادوں سے ان کا پیچھا چھڑانا ناگزیر ہے تاکہ وہ مستقبل کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار ہو سکیں۔ اس سلسلے میں اسکولوں، کالجوں اور گلی کوچوں سے لے کر قومی سطح پر کھیلوں کے فروغ کے لیے بھرپور پالیسی تشکیل دی جائے اور ایسے انتظامات کیے جائیں کہ کھیل کے میدانوں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جائے تاکہ ملک میں صحت مند سرگرمیاں فروغ پاسکیں اور بیرون ملک وطنِ عزیز کا سبز ہلالی پرچم سربلند ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہپاکستان اس اعتبار سے دنیا کے خوش قسمت ترین ملکوں میں سے ایک ہے جس کی آبادی کا غالب حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے مفید طاقت میں بدلناہماری ذمہ داری ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پراگندہ خیالی کا شکار نہ ہوں اوران کا ذاتی اورقومی ایجنڈا ہم آہنگ ہو جا ئے، یہ انتہائی نزاکت، باریک بینی اور کھلے ذہن کے ساتھ کرنے والا کام ہے، معیشت کی طرح اس معاملے میں بھی حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیے ۔ یاد رکھیے کہ اگر ہم نوجوانوں کو قومی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی قوت میں بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے جن میں انتہا پسندی کا مسئلہ بھی شامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں اس طرح کے حالات سے بچنے کے لیے دانشورانہ سطح پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس سلسلے میں ملک کے غیر جانبدار و غیر سیاسی علمااور سماجی علوم کے ماہرین کا ایک گروپ تشکیل دیا جائے جو انتہا پسندی کے اسباب کا مطالعہ کر کے جوابی بیانئے کی تیاری میں ریاست کے ساتھ شریک ہوجائے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا دین، اخلاقی اقدار اور ملک کا قانون خونریزی، عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور خاص طور پر اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کی اجازت نہیں دیتالیکن ہم یہ بات جن لوگوں کو سمجھانا چاہتے ہیں ، اُن سے ان ہی کی زبان ، اسلوب اور دلائل کے ساتھ بات کرنی ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ اقدام حالات میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے پیش بندی کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہدہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم نے بے مثال عزم وہمت کا مظاہرہ کیا ہے، قوم اس جنگ میں شہید ہونے والے مردوزن، بزرگوں اوربچوں کو اپنا محسن سمجھتی ہے، میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے تحفظ کی اس جنگ میں قربانیوں کی عدیم النظیرمثالیں رقم کرنے والے عوام کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک قومی یادگار قائم کی جائے جس پر اس جنگ میں شہید ہونے والے ہر فرد کا نام کندہ کیا جائے، زندہ قومیں اپنے شہیدوں کو ہمیشہ ایسے ہی عزت و احترام دیا کرتی ہیں جس کی دنیا میں بے شمارمثالیں موجود ہیں۔ اس طرح کی یادگاریں وطن کے تحفظ اور اس کے دفاع کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دفاعِ وطن کی اس جنگ میں ہمارے سول و فوجی اداروں کے جوانوں اور افسروں نے بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس پر قوم انھیں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ان جی دار جوانوں نے اپنی دلیری اور جانبازی کے مظاہروں سے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے جس قوم کے محافظوں کے دل قربانی اور شہادت کے ایسے جذبات سے لبریز ہوں، انھیں دنیا کی کوئی طاقت شکست سے دوچار نہیں کرسکتی۔ ہم اپنے ان محافظوں کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ قوم بد امنی کے مستقل خاتمے کے لیے ان اداروں کی پشت پر کھڑی ہو جائے۔انہوں نے کہا کہہم اس جنگ کے دوران قبائلی علاقوں کے بے گھر ہو جانے والے عوام کی قربانیوں پر بھی انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ امن و امان کی بحالی کے بعد ہمارے ان بھائی بہنوں کی اپنے گھروں کو واپسی کاسلسلہ جاری ہے، ان کی دوبارہ آباد کاری کے انتظامات کو مزیدتیز اور آسان بنا دیا جائے تاکہ قوم کی بقا کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر پریشان حالی کا شکار ہونے والے ہمارے بھائی، بہنیں اور بچے آسانی کے ساتھ اپنے علاقوں کو لوٹ سکیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دینے والے بہادروں کی طرح انسدادِ پولیو مہم میں جان کی قربانی پیش کرنے والے رضا کاراور پولیس کے افسر و جوان بھی ہمارے ہیرو ہیں۔ہم اپنے ان تمام شہیدوں کے بلندیِ درجات کے لیے دعا گو ہیں اور ان کی جرأت اور بہادری کوسلام پیش کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کی خواہشات کی ترجمانی کرنے والے اس فورم کے ذریعے میں عالمی برادری تک قوم کے جذبات واحساسات بھی پہنچانا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہم دنیا پر واضح کرتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ’’امن برائے ترقی اور پرامن ہمسائیگی‘‘ ہے ۔یہ پالیسی بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی تعلیمات کی روشنی میں تشکیل دی گئی تھی جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ ’’ہماری خارجہ پالیسی تمام اقوام عالم سے دوستی اور بھائی چارے پر مبنی ہو گی۔ ہم کسی قوم یا ملک پر جارحیت کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم قومی اور عالمی معاملات میں ایمان داری اور غیر جانبداری پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے مظلوم اور کچلے ہوئے عوام کی مادی و اخلاقی مدد اور اقوام متحدہ کے منشور کی پاسبانی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا‘‘۔ ان ہی اصولوں کی روشنی میں ہماری خارجہ پالیسی تین بنیادی نکات پر استوار کی گئی ہے۔(1) تعمیری سفارت کاری ۔(2) عدم مداخلت۔(3) تجارت کا فروغ اور معاشی تعاون۔انہوں نے کہا کہ عالمی امن اورہم آہنگی کے لیے اپنے اس پُر خلوص جذبے کے تحت ہم دنیا کے تمام ملکوں با لخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور پُرامن بقائے باہمی کے خواہش مند ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ خطے کے مسائل کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جو تقسیم برصغیر کا نا مکمل ایجنڈا ہے جب تک یہ مسئلہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق طے نہیں ہو جاتا، اس وقت تک خطے کے مسائل حل نہ ہو سکیں گے۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی یہی پیغام دیا گیا تھا کہ ہم پڑوسیوں کے ساتھ بلاتعطل ، مسلسل اور بامعنی مذاکرات کے خواہش مند ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہماری طرف سے خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ بڑھائے گئے ہاتھ کا جواب اسی جذبے کے تحت نہیں دیا گیا ۔ بدقسمتی سے حال ہی میں چند مزید ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی ضرورت پر بار بار زور دینے اور پٹھان کوٹ واقعہ کی مذمت اور مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کے باوجود خارجہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات التوا کا شکار ہیں جس پر ہمیں تشویش ہے ۔ اس طرح کے حالات نیک نیتی اور اخلاص کے اُسی جذبے کے روبہ عمل آنے سے بہتر ہوسکتے ہیں جس پر پاکستان کاربند ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے میں امن واستحکام کے لیے افغانستان کا امن ناگزیر ہے ۔یہ مقصد فریقین کے درمیان مکمل مفاہمت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہو سکتا۔ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے پورے اخلاص کے ساتھ نئی قیادت سے رابطے کیے تاکہ ماضی کی بدگمانیو ں کا خاتمہ کر کے دیرپا امن کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس سلسلے میں پاکستان ہی کی تحریک پر چار ملکی تعاون گروپ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت میں معاونت کررہا ہے جس کے اب تک کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں رونما ہونے والے حالیہ چند واقعات کی وجہ سے ان کوششوں کو نقصان پہنچا ہے لیکن ہمیں توقع ہے کہ یہ کو ششیں جلد کامیاب ہوں گی۔14 ملکی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی برادری سے تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات نہایت دوستانہ اور قریبی ہیں ۔ان ملکوں میں کام کرنے والے لاکھوں تارکین وطن نے بھی ان تعلقات کو مزید وسعت دی ہے ۔ ہم خلیج تعاون کونسل کے ساتھ افرادی قوت ، دفاع اور توانائی کے شعبے میں تعاون سمیت فری ٹریڈ ایگریمنٹ(FTA ) پر بات چیت کر رہے ہیں جو باہمی تجارت کے لیے سود مند ثابت ہو گی۔انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل مشرق و سطیٰ میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے خاتمے کے لیے پاکستان نے مثبت کردار ادا کیا جس میں ہمارے عزیز دوست ترکی نے بھی معاونت کی، ہماری ان کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ،اس پس منظر میں ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا دورۂ پاکستان بہت اہم تھا جس سے دونوں برادر ملکوں کے تعلقات میں نئی گرم جوشی پیدا ہوئی۔انہوں نے کہا کہایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس کے نتیجے میں دو طرفہ تجارت کو پانچ بلین ڈالر تک پہنچانے کے لیے پانچ سالہ اسٹریٹیجک منصوبے کی تشکیل پر کام ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے مزید انٹری پوائنٹس کھولنے پر اتفاق ہوا ہے جبکہ پاک ایران گیس پائپ لائن ہماری توانائی کی ضروریات کی تکمیل میں بھی معاون ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت اسی صورت میں فروغ پاسکتی ہے اگر مشترکہ سرحدیں محفوظ ہوں، آمدورفت کا ریکارڈ تیار کیا جائے اور سرحدوں پر کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی کو ناممکن بنا دیا جائے۔اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مؤثر نگرانی کا نظام ناگزیر ہے، میں چاہوں گا کہ حکومت ان معاملات کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کر لے۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی قیادت میں 35 ملکی فوجی اتحاد میں ہماری شمولیت ایک اہم واقعہ ہے جس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ہمارے عزم کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ انتہا پسندی کے قلع قمع کے لیے اس اتحادکاقیام بہت اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ وسط ایشیا ئی اور دیگر ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے پر جوش قریبی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے جو آنے والے برسوں میں سیاسی اور اقتصادی ہی نہیں، سماجی اور ثقافتی شعبوں تک بھی وسیع ہوجائیں گے۔ ان دوست اور برادر ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات خطے میں تعاون اور ترقی کے ایک نئے شاندار دور کی نوید ثابت ہوں گے۔ ان ہی پرُخلوص دوستوں کے تعاون سے پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت حاصل کی جس سے روسی فیڈریشن کے ساتھ ہمارے تعلقات کو ایک نئی جہت ملی ، حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کا ایک سمجھوتہ ہوا ہے ۔ تعاون کے ایک اور معاہدے کے تحت کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے جو دونوں ملکوں کے درمیا ن بڑھتے ہوئے خوشگوار تعلقات کا مظہر ہے۔انہوں نے کہا کہ برادر مسلم ممالک تاجکستان اور ترکمانستان کے صدور نے گزشتہ برس پاکستان کے دورے کیے جن میں تاریخ ساز معاہدے ہوئے۔ حال ہی میں کاسا -ون تھاؤزنڈ (CASA-1000) منصوبے کا آغازہواہے،اسی طرح ٹاپی (TAPI) گیس پائپ لائن کا افتتاح بھی اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت ہے جن سے ہمیں اپنی توانائی کی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ علاقائی روابط، امن و استحکام اور خوشحالی کے فروغ میں بھی مدد ملے گی ۔میں سمجھتا ہوں کہ وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ تعلقات کا یہ نیا دور تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل بن جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اسی خطے کے ایک اور اہم ملک بیلا روس کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات فروغ پذیر ہیں۔بیلاروس کے صدر اور وزیر اعظم نے یکے بعد دیگرے پاکستان کے دورے کیے ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ اس گرم جوشی کا جواب گرم جوشی کے ساتھ دیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی روابط کے نہایت مفید نتائج سامنے آئے ہیں ۔ اس سے قبل میں نے آذربائیجان کا دورہ کیا تھا جس سے دونوں برادر ملکوں کے درمیان مزید قربت پیدا ہوئی اور تعاون کے کئی سمجھوتے بھی عمل میں آئے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں مزید وسعت آئی ہے ۔یورپی یونین میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کا مرتبہ حاصل ہے جس سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ کے ساتھ اسٹریٹیجک مذاکرات میں مزید موضوعات کو شامل کر لیا گیا ہے جو دونوں ملکوں کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا مظہر ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات دیرینہ اور تاریخی ہیں، ان تعلقات میں اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے ذریعے مزید گہرائی پیدا ہو رہی ہے ۔ بات چیت کے ایجنڈے میں معیشت، توانائی، تعلیم،سلامتی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے بھی شامل کر لیے گئے ہیں جبکہ باہمی تحفظات کے خاتمے اور تعاون میں اضافے کے امکانات پر بھی مذاکرات جاری ہیں جو باہمی تعاون میں اضافے کا ذریعہ بنیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نیوکلیئر سیکیورٹی پر سختی سے یقین رکھتا ہے اور وہ اس معاملے میں عالمی برادری کو بھی متحرک کرنے کی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے ۔ پاکستان نے اپنی ایٹمی تنصیبات کو محفوظ بنانے کے لیے انتہائی جدید انتظامات کر رکھے ہیں جن کے سبب کسی بھی نوعیت کے کسی حادثے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ ہمارے ان انتظامات کے بہترین معیار کا اعتراف حال ہی میں واشنگٹن میں منعقد ہونے والی نیوکلیئر سمٹ میں بھی کیا گیاجو ہمارے لیے باعثِ فخر ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیامیں امن ، ترقی اور خطے میں علاقائی تعاون کے فروغ کے لیے بھی پاکستان نے انتہائی سرگرم اور فعال کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان اسلامی تعاون تنظیم(OIC) ، اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) ،سارک ، D-8تنظیم اور ایشائی تعاون ڈائیلاگ (ACD) میں متحرک کردار ادا کر رہاہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان خطے کے عوام کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ہمہ وقت تعاون پر تیار رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہیہ امر باعثِ مسرت ہے کہ آئندہ سارک سربراہ کانفرنس اسی سال نومبر میں پاکستان میں ہو گی ۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ سارک قیادت کا یہ اجتماع خطے میں مزید ہم آہنگی اور تعاون کے فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ کامیاب خارجہ تعلقات کی بنیاد قوم کا اتحاد، یک جہتی ، اندازِ زیست، آنے والی نسلوں کی تربیت اور اُٹھان پرر کھی جاتی ہے۔اگر ہم زندگی کے ان پہلوؤں پر توجہ دے کر کچھ معاملات کو مزید بہتر بنا لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ عالمی برادری میں ہمارے وقار میں مزید اضافہ ہو گا۔علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ع فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں۔موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں۔میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم اپنی قومی زندگی میں ربطِ ملت یعنی اتحاد وتنظیم کے معاملے میں کسی قدر لاپرواہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض اوقات انفرادی زندگی سے لے کر اہم قومی اور حساس معاملات تک بہت تکلیف دہ مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، یہ ایک غیر مناسب رحجان ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمان معاشرے میں خواتین کے احترام کی روایت غیر متنازع اورمسلمہ قدر کی حیثیت رکھتی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ہم بعض پریشان کن واقعات کا مشاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ، اس ناپسندیدہ صورت حال کا خاتمہ فوری طور پر ہونا چاہیے، اس معاملے کو سیاست سے زیادہ دینی ، اخلاقی اور تہذیبی مسئلہ سمجھنا چاہیے، لہٰذا اس کے حل کے لیے ہمیں سیاست سے بالا تر ہو کر انہی عوامل کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ خواتین معاشرے کا قابلِ قدر حصہ ہیں جنھیں قومی دھارے میں شریک کیے بغیر پائیدار ترقی کا حصول ممکن نہیں اس لیے انھیں خود مختار بنانے کے لیے ریاست نے کئی مؤثر اقدامات کئے ہیں جن میں قانون سازی بھی شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قومی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے خواتین کو ورک فورس کا حصہ بنایاجائے اور پرائمری تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر اُن کے سپرد کر دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ قائد اعظمؒ ایک ایسے نظام تعلیم کی تشکیل کے خواہش مند تھے جس کے ذریعے ہمارے بچے اپنی تاریخ و تہذیب اور جدید دنیا سے مطابقت پیدا کرکے اقوام عالم میں پاکستان کا نام روشن کر سکیں ۔ 18 ویں ترمیم کے تحت تعلیم کا معاملہ اگرچہ صوبوں کے سپرد ہے لیکن مشترکہ قومی مقاصد اور مسلمہ ملی و دینی اقدار کی ترویج کے لیے پاکستان کے تمام صوبوں اورعلاقہ جات کے تعلیمی نظام میں یکسانیت بہر حال ہونی چاہیے۔ میں نے وزیر اعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی جس پر وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کام کر رہی ہے ۔مجھے امید ہے کہ ان کوششوں کے خاطر خواہ نتائج جلد برآمد ہوں گے جس سے علمی اور تہذیبی قدروں کی آبیاری ہو گی ، ایک دوسرے کے احترام کی روایت مضبوط ہوگی اور قانون کی پاسداری کی عادت پختہ ہو گی۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی قوم عالمی برادری میں اُس وقت تک اپنا مثبت نقش قائم نہیں کرسکتی جب تک اس قوم کا ہر چھوٹا بڑا قانون کی حکمرانی پر یقین نہ رکھے ۔ قوموں کے کردار میں یہ خوبی اچھی تعلیم و تربیت سے بھی پیدا ہوتی ہے اور ملک کی ذمہ دارو مؤثر شخصیات اور طبقات کے مثالی طرزِ عمل سے بھی اسے فروغ ملتا ہے،جو قومیں قانون کے احترام اور نظم و ضبط کی پابندی کا سبق سیکھ لیتی ہیں ، اُن کی ترقی اور سربلندی کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم کی زندگی میں قانون کی اہمیت کم ہو جاتی ہے، وہ قوم خودداری سے محروم اور اپنے وطن کے احساس ملکیت سے عاری ہو جاتی ہے اور جو قومیں نظم و ضبط اور قانون کے احترام کی روایت کو زندگی کا حصہ بنالیتی ہیں، ان کے کارناموں سے دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔پاکستانی قوم نے اپنی مختصر تاریخ میں اللہ کے فضل و کرم سے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں،دنیا بھی ہمارے ان کارناموں کا اعتراف کرتی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ قانون کے احترام کے معاملے میں ہم اکثر لاپرواہی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں ۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ حکومت ،حزب اختلاف اور سیاسی جماعتیں ہی نہیں، معاشرے کے تمام طبقات بھی قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ قوموں کی برادری میں پاکستانی قوم کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو اور ہم ترقی و استحکام کی منازل زیادہ آسانی اور تیز رفتاری کے ساتھ طے کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی ترقی میں زراعت کا حصہ بہت زیادہ ہے اور ہمارے محنت کش کسان بڑی محنت سے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن دنیا جب سے موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آئی ہے، اس سے ہمارا کسان بھی متاثر ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے زرعی اور موسمیاتی سائنس دان اپنی تحقیق اور عالمی رحجانات کی روشنی میں کسانوں کی رہنمائی کریں تاکہ ہمارا زرعی شعبہ ان تبدیلیوں سے کم سے کم متاثر ہو۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس شعبے کی اہمیت کے پیشِ نظر کسانوں اور کاشتکاروں کے مسائل کے تدارک کے لیے مناسب اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے۔انہوں نے کہا کہ قومی ترقی کے سفر کو تیز رفتار بنانے اور اب تک حاصل کیے گئے معاشی اہداف کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے آبادی کی منصوبہ بندی ناگزیر ہے تاکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی جا سکے ۔ آبادی کے درست اعداد وشمار اور پاپولیشن پلاننگ میں کمزوری مسائل میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ متعلقہ شعبے اس اہم معاملے پر بھرپور توجہ دیں تاکہ ہماری ترقی کے راستے میں اس طرح کی کوئی بھی رکاوٹ حائل نہ ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی اُٹھان بڑی شاندار تھی ، اقوام عالم توقع کر رہی تھیں کہ یہ ملک ایک چمکتے ہوئے ستارے کی طرح نمایاں ہو گا لیکن بعض وجوہات کے سبب ہم بدقسمتی کا شکار ہوئے اور اپنی منزل سے دور ہو گئے ، آزمائش کے ان زمانوں میں قانون شکنی کی عاداتِ بد رنگ لائیں اور معاشرے میں بدعنوانی جڑ پکڑ گئی۔ بدعنوانی کے اس مکروہ دھندے نے قومی ترقی کی راہیں مسدود کر دیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اب اس گھناؤنے معاشرتی و قومی جرم کے خلاف بیداری پائی جاتی ہے اور معاشرے کا ہر طبقہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا آرزومند ہے ۔ میں یقین رکھتا ہوں ہم بحیثیتِ قوم اپنے اس عزم میں سرخروہوں گے اور پاکستانی سماج بدعنوانی کا قلع قمع کرکے ترقی اور سربلندی کے راستے پر گامزن رہے گا۔سورۃ بقرہ میں ارشاد ہوا کہ:’’اللہ جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔معاصر دنیا، خطے کے حالات اور پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں میری نظر میں ہیں اور میں پاکستان کے افق پرترقی، سر بلندی اور امن واستحکام کا ایک نیا سورج طلوع ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، قدرت ہم پر مہربان ہے اوروطنِ عزیز کی ترقی و خوشحالی کے نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں جس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ نمایاں ترین ہے۔ اس لیے میں اپنے ہم وطنوں سے کہوں گا کہ مایوسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیں ، ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ ملک کی ترقی و خوشحالی میں اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کریں ، اپنی صفوں میں کوئی دراڑ نہ پڑنے دیں اور آنے والے دور کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سخت محنت کریں تاکہ ہم خود کو اس انتخاب کا اہل ثابت کر سکیں ۔ ہمیں اپنا جائز مقام ضرور ملے گا اور ۔۔۔جلد ملے گا۔