خبرنامہ پاکستان

مسئلہ کشمیر اٹھانے کا حق ادا کر دیا…اداریہ نوائے وقت

وزیراعظم نوازشریف نے پورے عزم کے ساتھ مسئلہ کشمیر اٹھاتے ہوئے عالمی برادری پر واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل تک امن کا قیام ممکن نہیں اور عرصے سے قربانیاں دینے والے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا ہوگا۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل عام کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجا جائے جو بھارتی فوج کی طرف سے معصوم کشمیریوں‘ خواتین اور بچوں پر مظالم کی تحقیقات کرے۔ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرے، بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے فوجیں نکالنے کا کہا جائے، کشمیریوں نے 70 سال اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل اور قراردادوں پر عملدرآمد کا انتظار کیا ہے، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو آزادانہ اور شفاف استصواب کا حق دیا جائے، بھارت کو تمام تنازعات کے حل کیلئے ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔مذاکرات صرف پاکستان نہیں‘ بلکہ بھارت دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے بغیر پاکستان اور بھارت میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ کشمیریوں کی نئی نسل بھارتی قبضہ کیخلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ بھارت کے ہاتھوں شہید برہان وانی کشمیریوں کیلئے تحریک آزادی کی مثال بن چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بزرگوں، خواتین اور بچوں کو بینائی سے محروم کیا جا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں لاگو بھارتی کالے قوانین کی مذمت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ہم بھارت سے مذاکرات اور خطے میں امن چاہتے ہیں لیکن بات چیت میں بھارت کی پیشگی شرائط رکاوٹ ہیں۔ پاکستان کو خود دہشت گردی کا سامنا ہے، دہشت گردوں کو بیرون ملک سے رقم اور مدد مل رہی ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں نہیں پڑنا چاہتے مگر بھارت میں اسلحے کی خریداری کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ قابل اعتماد ڈیٹرنس برقرار رکھیں گے۔
وزیراعظم نوازشریف نے عالمی فورم پر افغانستان کے ساتھ معاملات‘ راہداری‘ دہشت گردی اور ضرب عضب پر بھی پاکستان کا مافی الضمیر پیش کیا مگر انکی تقریر کا فوکس مسئلہ کشمیر‘ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت تھی۔ وزیراعظم اور انکے وفد میں شامل افراد کی سائڈ لائن پر سرگرمیاں بھی مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنے پر مرکوز تھیں۔ مظلوم کشمیریوں کی ترجمانی صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے وہاں ملاقاتوں‘ اوآئی سی سمیت دیگر تنظیموں کے اجلاس سے خطاب کرکے کی۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ’’جنگ سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا‘ سیاسی اور سفارتی طریقے سے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر قوت ہے‘ بھارت کسی قسم کی مہم جوئی کا سوچے گا تو اسے ناکامی ہوگی۔‘‘ صدر آزاد کشمیر نے عالمی برادری کے کردار پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی بے حسی نظر آتی ہے۔ حریت رہنماء سیدعلی گیلانی کا بیان صدر مسعود خان کے خیالات کی تائید کرتا ہے جس میں انہوں نے بانکی مون کی طرف سے جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران کشمیر کا تذکرہ نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ صدر اوباما نے بھی اپنے خطاب میں کشمیر کا ذکر گول کردیا تھا جبکہ امریکی وزارت کے ترجمان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھارت کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے رہے۔ کانگرس کے اجلاس میں دو ارکان نے پاکستان کو دہشت گردی کا سپورٹر قرار دینے کا بل پیش کیا ہے۔ اوباما اور بانکی مون نے اپنی تقریروں میں مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرکے ایک طرح سے بھارت کی حمایت کا عندیہ دیا جبکہ امریکی وزارت خارجہ اور متعدد قانون ساز مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کے مقابلے میں کھل کر جارح بھارت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں‘ امریکہ کے بے جا موقف کی اسکے اتحادی بھی حمایت کرتے ہیں اور یوں عالمی برادری مصلحتاً مظلوم کشمیریوں کے بجائے ظالم بھارت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ اس سے خطے کے حالات مزید عدم استحکام سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ بھارت کو اپنی بربریت میں اضافے کی شہ مل رہی ہے۔ ان حالات میں دم غنیمت ہے کہ چین پاکستان کی حمایت پر کمربستہ ہے۔ اسکی طرف سے کہا گیا ہے کہ کشمیر پر پاکستانی موقف کو بہت اہمیت دیتے ہیں‘ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
اِدھر اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران پاکستان مسئلہ کشمیر پوری قوت سے اٹھارہا تھا‘ اُدھرمقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم جاری تھے۔ ایک روز بھارت نے اوڑی چھائونی میں حملے کا ڈرامہ رچا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی‘ دوسرے روز 10 کشمیری نوجوانوں کو درانداز قرار دے کر شہید کر دیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو جاری ہے‘ کشمیریوں کے پرامن مظاہروں پر فائرنگ کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔ گزشتہ روز بھی ایک نوجوان کو شہید‘ ایک سو کو گرفتار کرکے روایتی عقوبت خانوں میں پہنچا دیا گیا۔ چورمچائے شور کے مصداق بھارت مقبوضہ کشمیر میں بربریت بند کرنے کے بجائے پاکستان کو دہشت گردوں کا حامی قرار دے کر اسے دنیا میں بدنام اور تنہاء کرنے کیلئے سرگرم ہے۔ پاکستانی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اوڑی حملہ کرنیوالوں کے اسلحہ پر مبینہ مارکنگ اور دیگر پاکستانی اشیاء برآمد ہونے کا الزام لگا کر احتجاج کیا گیا جسے عبدالباسط نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ بھارت ڈرامے بند کرے۔ بھارتی ایجنسی نے اپنی حکومت کے جھوٹے دعوئوں اور الزامات کا یہ کہہ کر بھانڈا پھوڑ دیا کہ اسلحہ پر مارکنگ کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان میں ایک سیاسی کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے ایک دوسرے کیلئے عدم برداشت کے رویے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں‘ تاہم یو این او میں وزیراعظم کی تقریر پر تمام سیاسی پارٹیوں کا مثبت ردعمل سامنے آیا۔ یہ کشمیرکاز پر قوم کے متحد ہونے کی علامت ہے۔
بلاشبہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر خطے میں امن کا قیام ایک خواب رہے گا۔ وزیراعظم نوازشریف نے عالمی برادری پر اس مسئلہ کی اہمیت واضح کردی۔ وزیراعظم نے بھارتی سفاک فورسز کی بربریت اورحقائق سامنے لانے کیلئے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھجوانے پر زور دیا۔ بھارت پہلے ہی ایسے کسی مشن کو مقبوضہ وادی میں آنے کی اجازت دینے سے انکار کرچکا ہے۔ عالمی برادری کے اندر ضمیر اور انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز ہے تو وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر دبائو ڈالے اور فوری طور پر وادی میں اسکی بربریت رکوانے کے اقدامات کرے۔ وزیراعظم نے بھارت کو ایک بار پھر غیرمشروط مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ اس کا مثبت جواب دینے کے بجائے بھارت وزیراعظم نوازشریف کے خطاب پر مشتعل ہوگیاکہ الزامات اور دھمکیوں کا سلسلہ تیز کردیا۔ پاکستان کو لامحالہ اپنے دفاع کیلئے فوری اقدامات کرنا پڑے ہیں۔ پاک فوج اور قوم کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔ پاک فوج جغرافیائی سرحدوں پر چوکس اور فضائیہ کے طیاروں کے سائے حدود کے اندر پھیلے ہوئے ہیں‘ بحریہ بھی اپنی جگہ الرٹ ہے۔
کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستان کی سفارتی میدان میں کوششوں سے مسئلہ کشمیر دنیا کے سامنے اجاگر اور بھارتی فورسز کے مظالم بے نقاب ہورہے ہیں۔ حریت پسندوں کی جدوجہد رنگ لارہی اورآزادی کی منزل قریب آرہی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف‘ انکی ٹیم اور صدر آزاد کشمیر نے یواین اجلاس کے دوران مسئلہ کشمیر بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ یہ ٹمپو برقرار رہنا چاہیے تاآنکہ کشمیریوں کو ان کا حق مل جائے‘ حق استصواب مل جائے‘ آزادی کا حق مل جائے جو ہر قوم کا بنیادی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق ہے۔ اب بھارت کے ساتھ تجارت‘ تعلقات اور دوستی کی خواہش کا جواز نہیں رہتا۔ پرانی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بھارت کیلئے نرم گوشے کا شائبہ تک بھی نہیں ہونا چاہیے۔