خبرنامہ پاکستان

مفاد پرست عناصر چین پاکستان ایٹمی تعاون پر بے بنیاد تنقید کررہے ہیں

اسلام آباد(آئی این پی)چین کا پر امن ایٹمی توانائی کا پروگرام ہر آزمائش پر پورا اترنے والے دوست پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد د ینے کیلئے ہے۔ا ن خیالات کا اظہار ایک چینی سکالر نے کیا ہے ۔انہوں نے اس سلسلے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور بے بنیاد الزامات کو رد کرتے ہوئے چین پاکستان ایٹمی معاہدہ کے بارے میں کہا ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر چین پر دونوں ملکوں کے دوران ایٹمی توانائی کے تعاون پر تنقید کررہے ہیں ۔ چائنا ڈیلی میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں پیکنگ یونیورسٹی سکول آف انٹر نیشنل سٹیڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر نے مکمل ریکارڈ کے ساتھ حقائق پیش کئے ہیں ۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ چین کی نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن نے فروری میں اعلان کیا تھا کہ بیجنگ اور پاکستان کے درمیان قرض کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں جس کے مطابق چین 340میگاواٹ کے دو ایٹمی ری ایکٹر صوبہ پنجاب کے مقام چشمہ میں تعمیر کرے گا ، اس اعلان کو اخبارات میں حقائق سے ہٹ کر پیش کیا گیا جب کہ دراصل صورتحال یہ ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان ایٹمی تعاون پر 1980ء میں طویل المیعاد معاہدے ہوئے تھے جس میں ان ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر بھی شامل تھی ، چینی کمپنیوں نے 1991ء میں چشمہ پہنچ کر ایٹمی پلانٹ کی تعمیر کا آغاز کیا اور 2000ء میں چشمہ کے مقام پر پہلا ری ایکٹر بجلی پیدا کرنے کے لئے مکمل کیا گیا جس کی پاکستان کو اشد ضرورت تھی ، پانچ سال بعد چینی کمپنیوں نے چشمہ 2کی تعمیر شروع کی جو آئندہ سال کام شروع کردے گا ، چین اور پاکستان دونوں نا صرف نیوکلیئر سپلائی گروپ (این ایس جی )کے قوانین کے اندر رہ کر کام کررہے ہیں بلکہ وہ حقیقی طورپر شفاف اور پر امن ٹیکنالوجی کے لئے تعاون کررہے ہیں ۔وزارت خارجہ کے ترجمان کنگ گانگ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ چین اور پاکستان کے درمیان تعاون پر امن ایٹمی توانائی کے سلسلے میں جاری ہے جو کہ عالمی قوانین کے تحت پر امن مقاصد کیلئے ہے اور یہ پروگرام انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی نگرانی میں کام کررہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور وہ سفارتی ذرائع سے چین اور پاکستان کے درمیان اس معاہدے کو روکنے کی کوشش کررہا ہے حالانکہ اس نے 2006ء میں امریکہ کے ساتھ ایسے ہی معاہدے پر دستخط کررکھے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ چین کے بہت سے مخالفین امریکہ میں یہ الزام لگاتے ہیں چشمہ 3اور 4 این جی ایس کے رہنما اصولوں کو نظر انداز کررہے ہیں جو ایٹمی طاقتوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی اور مواد غیر ایٹمی ملکوں کو برآمد کرنے سے روکتے ہیں چونکہ پاکستان نے بھی این پی ٹی پر ابھی تک دستخط نہیں کئے اور نہ ہی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے اصولوں کو اختیار کیا ہے اس لئے اس کو ایٹمی تعاون فراہم نہیں کیا جائے سکتا ۔انہوں نے کہا کہ چین نے جب سے این جی ایس میں 2004ء سے شمولیت اختیار کی ہے اس کے نقاد مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے اور اس کے قوانین کی پوری پابند ی کرے اور کیونکہ چشمہ 3 اور 4 پر 2004ء کے بعد دستخط کئے گئے ہیں اس لئے وہ این جی ایس سے منظور شدہ ہونے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کے ایک اہم رکن آشلے ٹیلس نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ایٹمی معاہدہ کے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا اور انہوں نے چین پاکستان اور بھارت امریکہ معاہدے کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ موخر الذکر معاہدے پر نہ تو واشنگٹن میں اور نہ ہی این ایس جی میں بحث کی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو تو اسی وقت نظر انداز کر دیا گیا تھا جب بھارت کو جو این پی ٹی ،این ایس جی اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں سے باہر ہے کو مستثنیٰ قرار دیکر بھارت امریکہ معاہدے پر دستخط کر دئیے گئے ۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کو بجلی کے بحران کا سامنا ہے جس سے اس کی معیشت مشکلات کا شکارہے ۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان کو 3668میگاواٹ یومیہ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے اور پاکستان کے سامنے اس بحران پر قابو پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی صنعت کو ایٹمی توانائی فراہم کرے اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں پاکستان میں سماجی بد امنی اور انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو گا ، اس وقت پاکستان اپنی بجلی کی ضروریات کا صرف 2.34فیصد ایٹمی ذرئع سے حاصل کررہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ ہے جو با الواسطہ یا براہ راست چین پر کئی مہینوں سے تنقید کررہا ہے خصوصاً ان معاملات جن میں چین اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔